خطبہ الٰہ آباد سے قرار دادِپاکستان تک…!

54

قرارداد پاکستان کا سامنے آنا تھا کہ پورا ہندوستان بٹ کر رہے گا ہندوستان ، بن کر رہے گا پاکستان کے نعروں اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ کی صدائوں سے گونجنے لگا۔ یقینا یہ میرِ کارواں کی پکار تھی ، یہ منزل کے تعین کا یقین تھا، یہ منزلِ مقصود کو پانے کی تڑپ تھی، یہ ایثار ، قربانی اور عزمِ راسخ کا اظہار تھا، یہ عزم و یقین اور قوتِ ایمانی کا اعجاز تھا کہ انگریز حکمرانوں کی شاطرانہ اور منافقانہ چالیں اور ہندو اکثریت کی مخالفانہ سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں اور سات سال کے مختصر عرصے میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا سورج ایک نئی آزاد مملکت کے قیام کی صورت میں طلوع ہوا۔ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے الگ ملک حاصل کرنے کے مطالبے یعنی قیامِ پاکستان کے محرکات کے بارے میں جتنا بھی غور کیا جائے ، جتنی بھی چھان پھٹک کی جائے ، جس حوالے اور جس پہلو سے جانچا جائے،سیاسی محرکات کو سامنے رکھا جائے، معاشی اور اقتصادی اسباب کو بنیاد بنایا جائے، مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان فکری اور تہذیبی تصادم کو اہمیت دی جائے، مسلمانوں کی مذہبی رواداری اور وسعت نظری پیشِ نظر رکھی جائے اور ہندوئوں کی تنگ نظری پر نگاہ ڈالی جائے ، مسلمانوں اور ہندوئوں کی باہمی آویزشوں کا جائزہ لیا جائے، مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ طویل دورِ حکمرانی کے اہم واقعات اور فتوحات پر نظریں دوڑائی جائیں اور اُن کی حکومت کے ختم ہونے کے اسباب کا جائزہ لیا جائے غرضیکہ کوئی بھی رُخ ہو ، کوئی بھی پہلو ہو اور کوئی بھی گوشہ ہو یہ حقیقت واضح طور رپر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی الگ قومیت، اُن کا الگ تمدن اور اُن کا جُداگانہ ملی او ر مذہبی تشخص جسے عرفِ عام میں دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے وہ بنیاد ہے جس کے تحت انہوں نے ایک الگ مملکت کے حصول کو اپنی منزل قرار دیا۔
ہم ہر سال 23مارچ کو قومی تہوار کے طور پر یوم پاکستان مناتے ہیں۔ اس دن عام تعطیل ہو تی ہے اور رنگا رنگ تقریبات ہی منعقد نہیں ہوتی بلکہ جوائنٹ سٹا ف کمیٹی کے زیر اہتمام مسلح افواج کی شاندار پریڈ کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے ۔ پہلے اس شاندار پریڈ کا انعقاد ریس کورس گرائونڈ راولپنڈی جو پنڈی صدر سے پشاور جانے والی شاہراہ اعظم پر جانب مغرب ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے میں عرصے تک 23مارچ کو مسلح افواج کی شاندار پریڈ کا انعقاد ہوتا رہا ۔ اب تقریباًپچھلے اڑھائی تین عشروں سے جوائنٹ سٹاف کمیٹی کے زیرِ اہتمام مسلح افواج کی شاندار پریڈ کا انعقاد اِسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ اِس پریڈ میں تینوں مسلح افواج کے دستوں کا مارچ پاسٹ ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کا فضائی پاسٹ بھی شامل ہوتا ہے۔اِس کے ساتھ ہماری مسلح افواج کے زیر ِ استعمال جدید ترین ہتھیاروں ،ٹینکوں،توپوں،اینٹی ائیر کرافٹ گنوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بطورِ وار ہیڈ استعمال ہونے والے میزائلوں کی نمائش بھی کی جاتی ہے ۔یومِ پاکستان کی پریڈ نہ صرف پاکستان کی فوجی قوت ، اس کے جدید اسلحے اور برتر ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش کا ذریعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ اس سے پاکستان کی مسلح افواج کی اعلیٰ جنگی صلاحیتوں اور پاکستانی عوام کے اپنی مسلح افواج سے لگائو کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
23مارچ کو یوم پاکستان اور یوم پاکستان کی پریڈ کے حوالے سے بھی کئی باتیں ایسی ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا۔ 23مارچ 1940 کو قرارداد لاہور جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا کی منظوری کے بعد 23مارچ 1942کو یہ دن پہلی بار یوم پاکستان کے طور پر منایا گیا۔ پاکستان کے حصول کی عظیم اور فقیدالمثال جدوجہد کے دوران بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی 23مارچ کے دن کی بطور یوم پاکستان اہمیت برقرار رہی ۔ 23مارچ 1956کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا تو اس دن کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی اور یوم پاکستان کے ساتھ اس میں ـ”یوم جمہوریہ” کا اضافہ بھی ہوگیا۔ اکتوبر 1958میں ملک میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے نتیجے میں 1956کا آئین منسوخ کر دیا گیا تو 23مارچ صرف یوم پاکستان کے طور پر پکارا جانے لگا۔ اسی دوران ( یا اس سے قبل) 23مارچ کو راولپنڈ ی کے ریس کورس گرائونڈ میں عساکر پاکستان کی پریڈ کا انعقاد شروع ہوگیا۔ پچھلی صدی کے 60کے عشرے میں صدر ایوب اور اس کے بعد کے ادوار حکومت میں کئی بار 23مارچ کو منعقدہ عساکر پاکستان کی پریڈ دیکھنے کے مواقع ملے۔ گرائونڈ میں آکر پریڈ دیکھنے والوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہوا کرتی تھی ۔ ریس کورس گرائونڈ کی شمالی سمت میں بڑی تعداد میں وہ لوگ کھڑے ہوتے جو بغیر پاسز کے پریڈ دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ گرائونڈ کی اس سمت پریڈ دیکھنے کے لیے لوگ درختوں پر بھی چڑھے ہوتے تھے۔ گرائونڈ کی مغربی سمت پریڈ میں شرکت کرنے والے مسلح افواج کے دستوں اور پریڈ کے لیے لائے گئے ٹینکوں ، فوجی گاڑیوں اور دوسرے جنگلی سازوسامان کے لیے مخصوص ہوتی تھی۔ گرائونڈ کی جنوبی سمت جو پشاور روڈ سے ملحق اور اس کے متوازی ہے ۔ یا عارضی سٹینڈ بنا کر ان کو مختلف انکلیوئیرز (Enclusures)میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ جہاں مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں لگی ہوتی تھی۔ ان انکلیوئیرز میں وائٹ (White) وی وی آئی پی انکلیوئیر ہوتا تھا ۔ اس کے دائیں بائیں ایک طرف نیلے ، سرخ اور دوسری طرف سبز اور زرد سٹینڈ یا انکلیوئیرز ہوا کرتے تھے۔ مجھے یہاں ایک بار وائٹ اور کئی بار سبز اور سرخ انکلیوئیرز میں بیٹھ کر پریڈ دیکھنے کے مواقع ملے۔
یہاں میں 23مارچ یوم پاکستان کے موقع پر ہونے والی عساکر پاکستان کی دو پریڈز کے بارے میں اپنے ذہن کے نہاں خانے میں موجود بھولی بسری یادوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی پریڈ جس کا میں حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ وہ 23مارچ 1966کی پریڈ ہے۔ ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد یوم پاکستان کی یہ پہلی پریڈ تھی ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس میں بڑی تعداد میں چین کے بنے ہوئے F-6 (مگ 17) طیارے فلائی پاسٹ میں شامل ہوئے تھے۔ چین کے اس وقت کے وزیراعظم چو این لائی (یا وزیر دفاع مارشل چن ژی ) اس پریڈ میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے۔ پاک چین دوستی کا یہ قابل قدر مظاہرہ تھااور عوام کا جوش و جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ دوسری پریڈ جس کا میں ذکر کرنا چاہوں گا، وہ 80کے عشرے کے آخری برسوں (صحیح سن مجھے یاد نہیں آرہا ) میں سے کسی ایک سال کی پریڈ ہے۔ میرے ایک عزیز شاگرد جس کے والد اُس وقت پاک آرمی میں بریگیڈیئر تھے اور بعد میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے نے میرے لیے وائٹ انکلوئیر کا پاس مہیا کیا۔ میں پریڈ میں شرکت کے لیے اپنے موٹر سائیکل پر ریس کورس گرائونڈ گیا۔ موٹر سائیکل پشاور روڈ پر لاک کر کے پارک کیا اور گرائونڈ میں اپنی نشست پر پہنچ گیا۔ طیاروں کا فلائی پاسٹ شروع ہوا تو ابتدا میں F16طیاروں کی ٹکری گزری ۔ اس کے بعد میراج طیاروں کی باری تھی۔ چار چار طیارے مل کر گزرنے تھے ۔ مغرب کی طرف سے طیارے آرہے تھے اور سب کی نظریں ادھر لگی تھیں۔ مجھے ایسے لگا کہ گرائونڈ کی شمال مغربی کونے کی سمت میں کچھ دور دھوئیں کا ایک بادل یا بگولہ فضا میں بلند ہوا ہے اور پھر دیکھا کہ میراج طیاروں کی ایک ٹکری میں چار کے بجائے تین طیارے فلائی پاسٹ کے لیے گرائونڈ کی طرف آ رہے تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ شاید ایک میراج طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ کچھ دیر بعد دھواں اٹھنے والی جگہ کی طرف ہیلی کاپٹر اڑتے نظر آئے تو مجھے یقین ہوگیا کہ واقعی طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ میرا دل اب پریڈ گرائونڈ میں بیٹھے رہنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن وائٹ انکلوئیر میں سے نکل کر باہر آنا بہت مشکل تھا۔ بڑی مشکل سے نکل پایا ۔ گھر آیا تو ٹی وی پر پریڈ کے مناظر آرہے تھے اور ساتھ ہی یہ پٹی چل رہی تھی کہ فلائی پاسٹ میں شریک پاکستان فضائیہ کا ایک میراج طیارہ پرندے کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو کر گر گیا ہے۔
پچھلے تقریباً تین عشروں سے یوم پاکستان کی پریڈ اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے ۔ اسلام آباد میں جاکر پریڈ دیکھنا میرے جیسے شخص کے لیے ممکن نہیں تاہم ٹی وی پریڈ کے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں اور اب تو ان مناظر میں ایک طرف پاکستان کے جدید ترین ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائلوں کی نمائش ہوتی ہے تو اس کے ساتھ پاک فضائیہ کے طیاروں کے فضائی کرتب بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلاشبہ یوم پاکستان 23مارچ کی یہ پریڈ ایک طرف ہماری قومی یک جہتی کا نشان ہے تو اس کے ساتھ ہماری مسلح افواج کی طاقت، قوت اور برتر جنگی صلاحیتوں کا مظاہر ہ بھی ہے۔
پاکستان پائندہ باد

تبصرے بند ہیں.