عدم اعتماد: جنگ کا افتتاح نہیں ہوتا

31

پشاور کے اے پی ایس واقعہ کے بعد گزشتہ ہفتے کا ہونے والا خود کش دھماکہ شدید ترین تھا جس میں 60 سے زیادہ بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن گئے یہ قومی سطح پر سوگوار ترین اور ایمرجنسی حالات کا پیش خیمہ ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت سیاست کی اعلیٰ ترین چوٹیوں پر اس وقت پکا ور وا قعہ زیر بحث نہیں بلکہ اس کی جگہ تحریک عدم اعتماد نے لی ہے ۔ ترجیحات کی یہ غیر سنجیدگی، دیانت داری کے فقدان کامنہ بولتا ثبوت ہے۔
جہاں تک عدم اعتماد کا معاملہ ہے تو نمبر گیم میں آخر تک کچھ وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں ایسے بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن حکومتی حلقوں بالخصوص وزیر اعظم صاحب کی بو کھلاہٹ کو اگر perception index سمجھا جائے تو ان کے لہجے اور زبان و بیان کی کرختگی سے صاف لگ رہا ہے کہ سیٹ پر ان کی گرفت مضبوط نہیں ہے اور وہ کسی ان دیکھے خوف کے زیراثر تحمل اور برداشت کھو چکے ہیں۔
ایک طرف تو وہ اپوزیشن قیادت کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنے میں اخلاقیات اور شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جو قومی سطح پر ایک غیر صحتمند روایت ہے دوسری طرف دہ اسی سانس میں خود کو ریاست مدینہ کا مجدد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جس کی بنیاد اسلام کے اعلیٰ ترین مکارم اخلاق پر رکھی گئی تھی۔ کسی کا نام بگاڑنا یا مذاق اڑانا سیاست کے درجے کو پست کر دیتا ہے ویسے بھی حکمران پارٹی کے کھاتے میں یہ ’کارنامہ‘ ہے کہ انہوں نے سیاست میں گالی گلوچ اور اخلاق سے گرے ہوئے جملے متعارف کرائے جو اب روایت بن چکے ہیں ۔ یہ نئی روایت نئی نسل کے اخلاق کو پامال کر رہی ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم یورپین کمیونٹی اور امریکہ جیسی طاقتوں کو للکار رہے ہیں کہ وہ غلامی قبول نہیں کریں گے۔ ہوا یہ ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یورپین یونین کے 22 ممالک کے اسلام آباد میں تعینات ہونے والے سفیروں نے پاکستان فارن آفس کو ایک مراسلہ جاری کیا جس میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرے ہمارے فارن آفس نے اس کو غیر سفارتی حربہ قرار دیا لیکن اس خط کا لکھا جانا سفارتی روایات اور تاریخ میں ایک بہت زیادہ غیر معمولی واقعہ ہے جس کے منفی اثرات سے پاکستان کو فرار ممکن نہیں۔ کس نے کہا تھا کہ جنگ کے آغاز کے موقع پر آپ روس کی طرف سے پہلی گولی چلنے کے وقت وہاں جلوہ افروز ہوں یہ تو گویا جنگ کا افتتاح کرنے والی بات تھی حالانکہ جنگوں کا افتتاح نہیں ہوتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی غلطی ہو جانے کے بعد چاہیے تھا کہ
معاملات کو damage control کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاتے مگر وزیراعظم صاحب ڈٹ گئے ہیں کہ غلامی قبول نہیں کریں گے۔ پاکستان کے زرمبادلہ اور ایکسپورٹ دونوں میں اگر یورپی یونین اور امریکہ کو نکال دیں تو آپ کا پورا ڈھانچہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ گورنر پنجاب چودھری سرور جب ن لیگ میں تھے تو ان کی ذاتی کوشش سے یورپی یونین نے پاکستان کو تجارت میں GSP Status دیا تھا جس سے پاکستان کی ایکسپورٹ کو بے پناہ فائدہ ہوا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس بارے میں ان سے ہی پوچھ لیتے۔
وزیراعظم صاحب نے ساری توانائیاں ق لیگ کو ساتھ رکھنے پر صرف کر دیں اور 10 سیٹوں کی خاطر چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے تک کا وعدہ کر لیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ان کی اپنی پارٹی میں جہانگیر ترین گروپ کے بعد ایک نیا گروپ علیم خان کی قیادت میں بننے والا ہے اور مزید برآں یہ دونوں گروپ آپس میں اتحاد کر کے ایک ہو جائیں گے۔ اب بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے سب نے دیکھ لیا۔ ترین گروپ کے نواز شریف سے رابطوں کی خبروں کے بعد اب ق لیگ اپنی پاور بروکر پوزیشن کھو چکی ہے اور ترین اور علیم خان ان سے زیادہ Relevant ہو چکے ہیں جس پر پارٹی کے اندر سے سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر ق لیگ کے گھر جا کر انہیں وزارت اعلیٰ پیش کی جاسکتی ہے تو جہانگیر ترین اور علیم خان جو آپ کے اپنی پارٹی کے لوگ ہیں ان سے بات کیوں نہیں ہو سکتی۔ ن لیگ نے ترین اور علیم گروپوں سے رابطوں کی تصدیق کردی ہے اس پس منظر میں ن لیگ نے اپنی سیاسی شطرنج بازی میں ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے قد اور سائز کی کانٹ چھانٹ کر کے انہیں چھوٹا کر دیا ہے اور حکومت کو پیغام دے دیا ہے کہ جس طرح موت برحق ہے اور چھٹکارا ممکن نہیں اسی طرح سیاسی اقتدار بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں اور نہ ہی اس کو بقائے دوام حاصل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکمران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں اور خطرے کا ہر راستہ بند کرتے جاتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی نقب زنی ہو جاتی ہے جس کا انہوں نے سوچا ہی نہیں ہوتا حالیہ تناظر میں یہ علیم خان گروپ ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کے امکان کے ساتھ کئی اور حقائق جڑے ہوئے ہیں جس میں سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس سال نومبر میں نئے آرمی چیف کا فیصلہ ہونا ہے جو آئینی طور پر وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے۔ وہی کرے گا جو اس وقت وزیراعظم ہو گا۔ یہ ایک پورا thesis ہے جس پر ریسرچ کرنے والوں نے کافی تحقیقی کام کر رکھا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں دیا مر بھاشا ڈیم پر کام کی رفتار اور فنڈز کی فراہمی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ شاید ہمارا ملک 25 روپے فی یونٹ بجلی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ ڈیم اگر 2028ء تک مکمل ہوتا ہے تو بجلی کی قیمت فی یونٹ کم ہو گی ہمارا امپورٹ بل کم ہو گا گیس اور پٹرول کے خرچے کم ہوں گے ۔ یہ ساری باتیں اس بات پر منحصر ہیں کہ اگلے پانچ سال یعنی 2023ء سے 2028ء تک پاکستان کا حکمران کون ہو گا۔
عمران خان حکومت روس یوکرین جنگ سے تو اپنے اقتدار کو بچا سکتی ہے لیکن ملک میں جاری اپوزیشن کے ساتھ سیاسی جنگ میں اس وقت اپوزیشن کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ قدم قدم پر یہ سوال اٹھتے ہیں کہ وزیراعظم کو ایسے عاقبت نااندیشن مشورے کون دیتا ہے کہ انہیں ق لیگ تو نظر آ رہی ہے مگر جہانگیر ترین اور علیم خان جو ایک وقت پر ان کے ATM کہلایا کرتے تھے اور جن کے پاس ق لیگ سے کہیں زیادہ ووٹ ہیں وہ انہیں نظر نہیں آ رہے۔

تبصرے بند ہیں.