اس وقت صوبوں میں مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر ،ایسے مسائل ہیں جو گڈ گورننس کی بہتری میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہیں ،میری نظر میں اسکی سب سے بڑی وجہ ایک با اختیار مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت ہے۔ اسی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں، تجاوزات اور مہنگائی مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور انتظامیہ بھی امن وامان کے قیام اورپرائس کنٹرول کے علاوہ اشیاء صرف کی بلا تعطل فراہمی میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، انگریزدور میں ہندوستان کے طول و عرض پر انتظامی کنٹرول کیلئے ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی جس کی روشنی میں کمشنری اور ایگزیکٹیو مجسٹریسی نظام رائج کیا گیا، اس نظام میں بہت سی خامیاں ضرور ہوں گی لیکن عشروں کی آزمائش نے اسے آزمودہ نظام بنادیا ،ارض خدادا میں بھی یہ نظام عشروں تک قائم رہا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس خاصے اختیارات ہوا کرتے تھے،یوں ضلع کی سطح پر حکومتی رٹ کے نفاذ کا موثرنظام موجود تھا،اس نظام کے تحت انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی تال میل موجود تھا،ڈپٹی کمشنر انتظامی مجسٹریٹس کے سربراہ کے طور پر انتظامی معاملات کی نگرانی کرتے،اس نظام کے تحت فوری اور نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا ایک منظم نظام فعال تھا،سیشن جج اگر چہ ضلعی عدلیہ کا سربراہ ہوتا تھا مگر ضلعی انتظامیہ سے بھی رابطہ مسلسل رکھتا تھا ،ڈپٹی کمشنر ضلع کا انتظامی سربراہ ہونے کی حیثیت سے انتظامی کیساتھ عدالتی اختیارات کا بھی حامل تھا،اس نظام کے تحت ضلع اور تحصیل کی سطح پر انتظامی اور عدالتی نظام چلایا جا رہا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام اپنایا جس کے بعد کمشنری اور مجسٹریسی کے آزمودہ کار نظام کی بساط عملی طور پر لپیٹ دی گئی،نئے نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر کے تمام عدالتی اختیارات سلب کر لئے گئے جس کیساتھ مجسٹریسی نظام انجام کو پہنچا، نئے نظام کے تحت نچلی سطح پر انتظامی امور دن بدن بگڑتے چلے گئے،بد انتظامی نے سر اٹھایا،لاقانونیت پھیلی،قبضہ مافیا بے لگام ہوا ،منافع خور اور گراں فروش من مانی کرنے لگے،پولیس نظام جو پہلے ہی ابتری کا شکار تھا ، وہ مجسٹریٹ سے آزاد ہوکر مزید زبوں حالی سے دوچار ہو گیا،وقت نے ثابت کیا کہ مجسٹریسی نظام بہت فائدہ مند تھا اس سے عوام کو بہت فائدہ ہورہا تھامہنگائی کے جن کو بھی قابو کرنے کیلئے یہ نظام سود مند تھا،اشیاء کی قیمتوں کو مانیٹر کرنے کیلئے مجسٹریٹ متعین تھے جن کو سزا دینے کے عدالتی اختیارات حاصل تھے ،جو اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ مارکیٹ میں کس چیز کی کمی ہے اور کیوں ہے، قیمت میں کس حدتک اضافہ ہو رہا ہے اشیاء کی کوالٹی کیسی ہے، اس صورتحال سے حکومت کو آگاہ کیا جاتا اور فوری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے نتیجے میں حالات معمول پر آجاتے تھے، لیکن اب یہ اقدامات قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں اور جس کا جو جی چاہے نرخ وصول کررہاہے، وفاقی کابینہ کی جانب سے کافی عرصہ پہلے منظوری کے بعدپنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں 17سال بعد مجسٹریسی نظام کی بحالی کا فیصلہ کیا اور مجسٹریسی نظام کی بحالی کیلئے اقدامات شروع کر دئیے مگر مجسٹریسی نظام ،عدالتی نہ ہونے کی باعث امن و امان کی صورتحال، مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کو مشکلات پیش آرہی تھیں،پنجاب میں پولیس کو ڈپٹی کمشنر کی دسترس سے آزاد کر دیا گیا،نتیجے میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو گئی،عدالتی اختیارات کے خاتمہ کے بعد ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹس سے سزا دینے کا اختیار بھی سلب ہو گیا،اب جس کا جو جی چاہتا ہے کر رہا ہے،کوئی پوچھنے والا نہیں،نچلی سطح پر حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
مجسٹریسی سسٹم کی بحالی کا اشارہ ملتے ہی پولیس کی طرف سے مزاحمت بھی سامنے آئی اور اس مقصد کے لئے اعلیٰ سطح پر رابطے بھی کئے گئے گو اس ضمن میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ترمیم لانے کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا تا ہم چاروں صوبوں کی جانب سے سسٹم کی بحالی پر اتفاق کے بعد قانون سازی میں انتظامی مجسٹریٹس کو امن وامان اور پرائس کنٹرول کے حوالے سے اختیارات تفویض کئے جانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے وزیر قانون کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ الگ ہیں اور ان مجسٹریٹس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔مجسٹریسی نظام کی بحالی پر صوبوں کا اتفاق اور وفاق کو اختیارات تفویض کرنا دیر آید درست آید کے مصداق قابل اطمینان ہے اس نظام کی افادیت ایک ایسے وقت میں زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے جب کہ ملک کے اقتصادی اعشاریوں میں استحکام کے باوجود عام شہری کے لئے گرانی کے ہاتھوں دو وقت کی روٹی پوری کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
مجسٹریسی نظام کی بحالی کے حوالہ سے معاملات زیر غور ہیں ،اس نظام کی بحالی کی مخالفت بھی سامنے آئی جس کے بعد اس نظام کی پوری روح کے ساتھ بحالی کی امید دکھائی نہیں دیتی اگر ایساہوتاہے تویہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی موجودہ حالات میں کہ جب ایک مرتبہ پھر بدامنی کاجن بوتل سے نکلنے کی کوشش میں ہے جبکہ مہنگائی کاجن قابو سے باہر ہے پھر سے اسی آزمود ہ نظام کی بحالی کے لئے صدائیں بلندہورہی ہیں جوانگریزنے ہندوستان آنے کے بعدنافذ کرکے کم و بیش ایک صدی تک کامیابی سے چلاکردکھایا اور اس کی مدد سے چند سو افسروں کے ساتھ برصغیر پر کامیابی کے ساتھ راج کیا،مگر اس نظام کے خاتمے سے بدانتظامی ،بدامنی، مہنگائی، ملاوٹ اورچور بازاری کا بازار گرم ہو گیا،اس سسٹم میں ڈپٹی کمشنر اورڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ درحقیقت سیفٹی والووکی حیثیت رکھتا تھا آج بھی اگر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام بحال کیاجائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف قیمتیں چیک کرنے سے کچھ نہیں ہوگا گورننس کنٹرول کرنے کیلئے مجسٹریسی رول انتہائی ضروری ہے جو موقع پر فوری سزا دے کر حکومتی رٹ کو بحال کریں،کچھ حلقے مجسٹریٹس کے اختیارات پر معترض رہتے تھے لیکن یہ لوگ کیوں یہ بھول جاتے ہیں اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اورقانون کے مطابق ہی تھے مجسٹیریل سسٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی مجسٹریٹ عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتے تھے امن وامان کامسئلہ جب پیدا ہوتا تو مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ ساتھ رہتا اور پولیس اس کی ہدایات پر عملدرآمد کی پابند ہوا کرتی تھی وہ ایک پورا ضلعی نظام تھا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے پھر سی آر پی سی کے تحت تھانہ مجسٹریٹ تھے یہ افسران عدالتی اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کو جواب دہ تھے جبکہ انتظامی اختیارات کے معاملہ میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پابند تھے ڈپٹی کمشنر پھر بھی ان سے پوچھ گچھ کر سکتا تھاآپ کے تھانے کی حدود میں بدامنی کیوں ہے؟ گویا ایک مکمل نظام تھا جو پاکستان جیسے ملک کے لئے ایک نعمت اور ضرورت تھی۔آج عدلیہ ،پولیس اور ضلعی انتظامیہ چوں چوں کا مربہ بن چکی ہے ،ہمیں اپنی اپنی سروس بچانے کے بجائے ملکی نظام کو بچانے کے لئے کچھ کرنا ہوگا ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔
تبصرے بند ہیں.