جوڑ توڑ کی سیاست میں تیزی

22

موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لانے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے جوڑ توڑ میں تیزی آ گئی۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کر لیا۔ اس پر 80 ارکان کے دستخط ہیں۔ ان سب کا تعلق ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف اور بی اے پی اختر مینگل گروپ سے ہے یعنی اپنوں ہی کے دستخط ہیں۔ اس کے لیے 9 رکنی کمیٹی نے تحریک کی کامیابی کے لیے ارکان کی مطلوبہ تعداد پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تحریک پیش کرنے کی سفارش کی تھی کتنے ارکان ہیں دونوں جانب سے تعداد خفیہ رکھی جا رہی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی کل تعداد 179 ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے کل ارکان 158 یا 162 بنتے ہیں۔ بات کیسے بنے گی؟ حالات کے ستائے ہوئے اپوزیشن ارکان کا دعویٰ ہے کہ ہمیں حکومتی صفوں سے 24 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ بتائی جاتی ہے کہ ن لیگ نے 16 پیپلز پارٹی نے 6 اور جے یو آئی ف نے 2 ارکان کھینچ لیے۔ کون نیک بخت ہیں اب تک کسی کو پتا نہیں۔ اتنے ہوم ورک کے بعد تحریک لانے کی جدوجہد تیز ہو گئی ہے۔ تحریک کب پیش ہو گی۔ مولانا فضل الرحمان کے مطابق 48 یا 72 گھنٹے اہم ہیں یعنی 7 مارچ تک تحریک جمع کرا دی جائے گی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے ریکوزیشن دی جائے گی اجلاس کب بلایا جائے گا جب حکومت کو دیگر دھندوں سے فرصت ملے گی۔ اس عرصہ میں بلاول بھٹو بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت اسلام آباد پہنچ جائیں گے اگرچہ وزیر داخلہ شیخ رشید پی پی کے لانگ مارچ کو گھر کا معاملہ قرار دیتے ہیں لیکن نوجوان لیڈر بڑے جوش میں دکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے تیر مشہور ہیں۔ اس وقت بھی وہ ایک تیر سے کئی شکار کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف تحریک میں پی ڈی ایم سے علیحدگی کے باوجود ارکان جماعتوں کے شانہ بشانہ ہے بلکہ مہنگائی یا لانگ مارچ کے نام پر سر گرم حصہ لے رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسی آڑ میں آئندہ عام انتخابات کے لیے مہم چلا رہی ہے جیالوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ان کا لہو گرمانے کے لیے بلاول بھٹو کی تقریریں اثر انگیز ثابت ہو رہی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو پنجاب یا وفاق میں حکومت سازی سے فی الحال دلچسپی نہیں وہ پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے خصوصاً پنجاب میں پاؤں جمانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ انہیں بات کرنے بلکہ بات بنانے کا سلیقہ آتا ہے انہوں نے شہباز شریف کو ملاقات میں رام کر لیا اور شیشے میں اتار کر اس بات پر راضی کر لیا کہ ن لیگ پنجاب میں پی پی کے لانگ مارچ کا استقبال کرے گی۔ تاہم سیانوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ لانگ مارچ کے دوران قمر زمان کائرہ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر جیسے سوجھ بوجھ رکھنے والے لیڈر کہاں غائب ہو گئے یا کر دیئے گئے۔ بات دور نکل گئی کہ بلاول بھٹو اپنے لشکر جرار کے ساتھ دھمال ڈالتے ہوئے اسلام آباد پہنچ جائیں تو بات آگے بڑھے گی۔ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے اپوزیشن
میں تحریک پیدا ہوتے ہی حکومت بھی متحرک ہو گئی۔ اتحادیوں کی قدر و قیمت میں اضافہ ہونے لگا سیاستدان ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت کی عیادت کے بہانے آنے لگے۔ ’’عیادت تو تھی اک بہانہ صاف کہہ دو کہ ہے آنا جانا، ق لیگ روز اول سے ’’حکم حاکم‘‘ کے مطابق حکومت کی اتحادی نواز شریف سے شاکی ن لیگ پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں لیکن جب تک سیاست میں ہے تو حکمرانی کرے اپوزیشن میں رہ کر نیب کے ریفرنسوں اور مقدمات کے سوا کیا حاصل ہو گا۔ عدالتوں کے چکر ضمانتوں کے لیے بھاگ دوڑ کیا فائدہ، بے فائدہ سیاست فضول اور تھکا دینے والا مشغلہ، اسی اصول پر گزشتہ پچاس سال سے کار بند ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن کے سارے رہنما ملنے کو آئے چودھری پرویز الٰہی نے سب کا استقبال کیا۔ بات چیت کے دوران سب کو طفل تسلیاں، پی ڈی ایم والوں سے دو دن کی مہلت مانگی۔ اسی دوران وزیر اعظم بھی پہنچ گئے وہی استقبال بلکہ خندہ پیشانی سے خیر مقدم مذاکرات میں ساتھ رہنے کی یقین دہانی اپوزیشن کو تسلی کیوں دی تھی؟ ن لیگیوں کو پتا چلا تو صدمہ ہوا تاہم رانا ثناء اللہ نے مونچھوں کو تاؤ دے کر تاؤ کھاتے ہوئے کہا کہ چودھری برادران فیصلہ کریں کہ انہیں اقتدار کے ساتھ رہنا ہے یا عوام کے ساتھ۔ ق لیگ کے بعد دوسرے بڑے اتحادی ایم کیو ایم والے ہیں 7 نشستیں حکومت کی جیب میں ہیں۔ چھوٹے بڑے تحفظات کے باوجود وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر اپنے لیے گونا گوں دشواریاں پیدا نہیں کریں گے، سارے اتحادی مجبور ہیں اُف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ شنید ہے کہ وزیر اعظم سارے اتحادیوں سے ملیں گے تاکہ وہ ڈور سے بندھے رہیں اس کے ساتھ ہی روس کے دورے سے واپسی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے اور بجلی کی قیمت میں 5 روپے کمی کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن والوں نے پورا ایک دن سوچ بچار میں گزارا اور اس ریلیف پر تشویش اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آسمان سے کون سا من و سلویٰ نازل ہو رہا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کر دی۔ پیسے کہاں سے آئے جواب ملا ایف بی آر نے 441 ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ ہم نے غریب عوام کو ریلیف فراہم کر دیا کسی نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔ شکر ہے ساڑھے 3 سال امیروں کو ریلیف دینے والوں کو تحریک عدم اعتماد کا اعلان ہوتے ہی غریبوں کا خیال آ گیا یہاں تو پہنچے یہاں تو آئے۔ چند روز پہلے ساڑھے سات ارب کے ٹیکس لگائے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہر مہینے پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا اعلان کیا۔ اچانک انقلاب کیسا؟ کیا آئی ایم ایف کی شرائط ختم کر دیں۔ معاہدے کے مطابق رقم کہاں سے آئے گی۔ بوجھ اول آخر عوام پر پڑے گا یا اضافی قرض لے کر پیکیج کو پورا کیا جائے ’’لے کے قرضہ پھنس گیا ہے لے کر قرضہ چھوٹ جا‘‘ خدشہ ہے کہ عوام کی جیبوں سے 13 ارب نکالے جائیںگے۔ ماہرین خدشات اپنے پاس رکھیں ریلیف کا اعلان بروقت کیا گیا تاہم اس کے باوجود مہنگائی کسی طرح کم ہونے میں نہیں آئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 13.24 فیصد ہے۔ رمضان المبارک کے دوران 20 فیصد ہو جائے گی۔ سیاسی دنگل کا فائنل راؤنڈ شروع ہو گیا۔ جیت کس کی ہو گی؟ کسے معلوم دعوے، بڑھکیں سنتے جائیں سر دھنتے جائیں۔ مولانا فضل الرحمان کو کوئی فکر نہیں ہے، کہنے لگے، ہمارا فوکس ہے کہ خزاں جائے بہار آئے نہ آئے لیکن ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے اس بات کے لیے پُر عزم ہیں کہ بقول ان کے خزاں جائے اور بہار بھی آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج، اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی‘‘ 24 یا 27 طائران خوش نوا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز ایوان میں آ گئے اور انہوں نے ببانگ دہل حق رائے دہی استعمال کر لیا تو غالب سچے ورنہ پوری اپوزیشن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد۔ وزیر مشیر اور ترجمان ہفتہ پندرہ دن تک وہ ڈھول پیٹیں گے کہ قسم اللہ کی غریب عوام اپنی غربت بھول جائیں گے۔ تحریک کامیاب ہو گئی تو کیا ہو گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے تینوں بڑے فوری طور پر اتنخابات کرانے پر متفق ہو گئے ہیں۔ آصف زرداری مدت پوری کرنے پر بضد تھے لیکن بالآخر مان گئے، اپوزیشن کا ڈیڈ لاک ختم ہو گیا۔ مولانا کو یقین ہے کہ نمبر پورے ہیں ایمپائر بھی نیوٹرل نظر آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی بصیرت و بصارت قائم و دائم رکھے۔ انہیں کیسے پتا چلا، سیدھی اور سچی بات یہ ہے کہ 24 یا 27 ارکان جدھر چلیں گے ہوا کا رخ اُدھر ہی ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ اپوزیشن کی ضرورت یا دباؤ، سیاسی بابے جانے کیوں کہہ رہے ہیں کہ ’’اِک تقریر پہ ہی موقوف ہے گھر کی رونق‘‘۔

تبصرے بند ہیں.