عطاء الرحمن ۔۔۔چند یادیں چند باتیں

33

نوے کی دہائی کے آخر کی بات ہے ان دنوں بے روزگاری کا سامنا بھی تھا حسن نثار صاحب سے بے روزگاری ختم کرانے کا کہا توانھوں نے مجھے اور شفیق کو مجیب الرحمن شامی صاحب کے پاس جانے کا حکم دیا۔ ان دنوں وہ روزنامہ دن کے سربراہ بنے تھے اور روزنامہ پاکستان بھی دن کے زیر اہتمام آ گیا تھا ۔طے پایا کہ اگلے روز صبح گیارہ بجے سب دن کے دفتر ملیں گے اور شامی صاحب سے بات کر کے ہمیں پاکستان کے میگزین سیکشن میں جگہ دی جائے گی ،میں اور شفیق پہنچے تو حسن نثار صاحب پہلے سے شامی صاحب کے کمرے میں پہنچ چکے تھے ہم باہر میٹھ کے انتظار کرنے لگے کہ کب بلاوا آتا ہے اور ہم اندر جائیں ۔اسی اثناء میں حسن نثار صاحب باہر نکل آئے اور ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ آپ دونوں کا کام تو ہو گیا ہے لیکن ایک گڑ بڑ ہو گئی ہے ،پوچھا وہ کیا تو کہنے لگے کہ میں نے تم دونوں کی تعریف کچھ زیادہ کر دی ہے  تو شامی صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر دونوں اتنے ہی اچھے ہیں تو میں انھیں پاکستان کے بجائے اپنے میگزین زندگی میں بھیج دیتا ہوں مجھے وہاں ان کی ضرورت ہے ۔حسن نثار صاحب نے کہا کہ آپ دونوں فوری طور پر زندگی کے دفتر پہنچ جائو آپکی نوکری آج سے شروع ہو چکی ہے اور وہاں جا کے عطا اہرحمن صاحب سے ملو ۔ہم دن کے دفتر سے روانہ ہوئے اور ایم اے او کالج کے پاس زندگی کے دفتر پہنچے عطاء الرحمن صاحب انتظار کر رہے تھے بہت محبت سے ہمیں خوش آمدید کہا اور سارا سسٹم سمجھایا ۔یہ عطاء الرحمن صاحب سے پہلی باقاعدہ ملاقات تھی جس میں ہماری محبت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔گرچہ پہلے بھی ان سے ملاقاتیں تو تھیں لیکن تفصیلی پہلی مرتبہ ہوئی فوری طور پر مجھے ایک اسائنمنٹ دے دی گئی اور دو دن میں اسے مکمل کرنے کا کہا گیا ۔میں اپنی اسائنمنٹ مکمل کر کے عطاء الرحمن صاحب کے پاس پہنچا تو انھوں نے اسے بہت بے دردی سے ایڈٹ کیا۔میں بہت مایوس ہوا کہ شاید مجھے لکھنا نہیں آتا میں نے کہا کہ میں تو اس سے پہلے سیکڑوں مضامین اور فیچر لکھ چکا ہوں لیکن اس طرح تو کسی ایڈیٹر نے ایڈٹ نہیں کیا ۔مجھے مایوس دیکھ کہ ہنسنے لگے اور اپنے مضمون کا ایک صفحہ نکالا جو ایڈٹ کیا ہوا تھا میںدیکھ کے حیران رہ گیا کہ انھوں نے اپنے مضمون کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا تھا جو میرے مضمون کے ساتھ کیا تھا ۔کہنے لگے کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہمیشہ ایک ایک لفظ کو نکھاروں چاہے میرا مضمون ہو یا کسی کا ۔بہر حال  جب ان کا ایڈٹ  شدہ میرا آرٹیکل شائع ہوا تو سب نے بہت تعریف کی کہ کیا خوبصورت لکھا ہے اب یہ تو مجھے علم تھا کہ اس مضمون کی خوبصورتی کے پیچھے کیا کمال ہے اس کے بعد جتنی دیر میں زندگی میں رہا میری کوشش ہوتی کہ ہر مضمون عطاء الرحمن صاحب اسی بے دردی سے ایڈٹ کریں تاکہ اسکے حسن میں اضافہ ہو سکے۔اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا کافی باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے روزانہ ایک آدھ لطیفہ بھی سنا دیتے جو ہمیشہ نیا ہوتا ۔ہفت روزہ زندگی چھوڑنے کے بعد ملاقاتیں جاری رہیں چھ سات سال بعد جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب الیکٹرانک میڈیا میں جانا چاہئے تو میں نے اس وقت لاہور میں موجود واحد چینل رائل ٹی وی کو جائن کر لیا وہاں جا کر مجھے بہت خوشی ہوئی جب دیکھا کہ وہاںعطاء الرحمن صاحب بھی موجود تھے جو میزان کے نام سے پروگرام کر رہے تھے ۔ہم دونوں پہلی مرتبہ الیکٹرانک میڈیا میں آئے تھے ایک دوسرے سے روزانہ ملتے اور سیکھتے ، میں نیوز میں تھا اور عطاء الرحمن صاحب پروگرامنگ میں تھے میزان کے نام سے پروگرام کرتے ۔جس سیاستدان کو بلاتے وہ بخوشی ان کے پاس آ جاتا انکار نہ کرتا ۔حتیٰ کہ ایک مرتبہ انھوں نے لندن سے نواز شریف کو فون لائن پر لے کر دو گھنٹے ان کا لائیو انٹرویو کیا جس پر اس زمانے میں پابندی تھی ۔جمہوریت کے حامی تھے ایک دن ڈی جی آئی ایس پی آر کو لائن پر لیا اور کسی بات پر بحث ہو گئی ڈی جی صاحب ناراض ہو گئے لیکن اس کے باوجود عطا ء الرحمن صاحب نے اپنا موقف انھیں مکمل طور پر بیان کیا ۔وکلاء تحریک میں بھی پیش پیش رہے اورخوب پروگرام کئے ۔ایک دن کہنے لگے کہ میں اب جا رہا ہوں اور اپنا اخبار نکالنے لگا ہوں جس کا میں گروپ ایڈیٹر ہوں گا ۔چند روز بعد روزنامہ نئی بات کا اعلان ہو گیا۔شاید(صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
اس کے بعد پھر ہمارا اکٹھے کام کرنا لکھا تھا نئی بات میڈیا گروپ نے جب ٹی وی نکالنے کا سوچا تو مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کا پہلا ایمپلائمنٹ لیٹر مجھے ملا ،ٹی وی چونکہ ابھی کچھ لیٹ تھا مجھے وقتی طور پر اخبار میں بھیج دیا گیا جہاں ایک مرتبہ پھر عطاء الرحمن صاحب کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جو انکی زندگی کے اختتام تک جاری رہا۔جب میں نے نئی بات میڈیا نیٹ ورک جوائن کیا تو کچھ ہی عرصہ بعد اے لائٹ ٹی وی کا آغاز کیا گیا جو بعد میں نیو ٹی وی بن گیا ، اے لائٹ ٹی وی کی ذمہ داری مجھ پہ آ گئی پروفیسر ڈاکٹرچوہدری عبدالرحمن صاحب نے مجھے ہدایت دی کہ عطاء الرحمن صاحب سے مشورہ کرو کہ کون کون پروگرام کرے گا میں نے جب عطاء الرحمن صاحب سے بات کی تو انھوں نے میزپر ہاتھ مار کر کہا کہ چوہدری عبدالرحمن صاحب کو بتا دو کہ گیارہ بجے والا پروگرام میں کروں گا ۔میں نے چوہدری عبدالرحمن صاحب کو ایسے ہی پیغام دیا وہ مسکرائے اور کہا جیسے عطا ء الرحمن صاحب کہتے ہیں ویسے ہی ہو گا۔ اور پھر انھوں نے پروگرام شروع کر دیا نیو ٹی وی شروع ہوا تو آرٹیکل 19کے نام سے انھوں نے پروگرام شروع کیا ۔اس دوران میں بھی مکمل طور پر نئی بات میں آ گیا اور روزانہ میٹنگز جاری رہیں۔گزشتہ ڈیرھ سال سے ان کی صحت خراب رہنا شروع ہو گئی تھی اس دوران جب بھی انکی صحت اجازت دیتی وہ میٹنگ کے لئے ضرور آفس آتے اور آنے سے پہلے اسد شہزاد کو اطلاع دیتے کہ میٹنگ کے لئے تیار رہو ۔اکثر وہ اسد شہزاد سے جو ہمارے کوآرڈی نیٹر ایڈیٹر ہیں سے کسی بات پر ناراض ہوکر مجھ سے اسکی شکایت کرتے پھر میں معاملہ رفع دفع کرا دیتا ۔گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے وہ زیادہ بیمار ہو گئے تھے اس دوران بھی انکی خواہش ہوتی کہ رات کو ان سے فون پر میٹنگ ضرور کر لی جائے دو روز پہلے ہی میٹنگ ہوئی اگلے روز جب فون کیا تو ان کی بیٹی نے بتایا کہ دعا کریں اللہ انھیں صحت دے اگلے ہی روز صبح 10 بجے رضی صاحب نے خبر دی کہ عطاء الرحمن صاحب اب ہم میں نہیں رہے اس طرح صحافت کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا لیکن ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔آج بھی جب رات 11  بجتے ہیں میرے ہاتھ بے اختیار عطاء الرحمن صاحب کا نمبر ڈائل کرنے کی طرف بڑھتے ہیں کہ لیڈ ڈسکس کر لی جائے پھر یاد آتا ہے کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے ۔اللہ انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ( آمین)
ہمایوں سلیم

تبصرے بند ہیں.