اس وقت موجودہ سیاسی صورتحال کا اگر ہم سب لوگ موازنہ کریں تو عدم اعتماد کی باتیں گردش کر رہی ہیں اور مختلف جماعتوں کے لیڈران کی ملاقاتیں مسلسل جاری ہیں۔تو دوسری طرف عوام کو مہنگائی کے لالے پڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو ریلیف پیکیج کا عندیہ دیا ہے۔جیسے ہی وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو عندیہ دیا تو بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پوائنٹ سکورنگ کر ڈالی کہ ابھی لانگ مارچ شروع ہی ہوا تو وزیر اعظم پریشر میں آگئے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔
خیر سیاست ہے کریڈٹ کوئی بھی لے مگر یہ اعلان قابل ستائش بھی ہے جس کام میں ملک و قوم کی بھلائی ہو وہ چاہے کسی بھی جماعت کے ہاتھوں سے ہو اُس کی تعریف جائز ہے اور کرنی بھی چاہیے۔اس فیصلے کے یقینا نتائج خوش آئند اور مثبت بر آمد ہونگے لیکن سوال یہ ہے کہ اچانک یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟جبکہ عوام تو ایک عرصے سے مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے یہ بات قابل تشویش بھی ہے کچھ حلقے وزیر اعظم کے اس اعلانات پہ اظہار مسرت کر رہے ہیں اور بعض حلقوں کی جانب سے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔مثلا جن حلقوں کی جانب سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں میری نظر میں وہ لوگ کسی حد تک درست بھی سوچ رہے ہیں کیونکہ اُن کے خیال سے کہیں حکومت یہ اقدامات کسی دبائو میں تو آکر تو نہیں کر رہی۔
ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کیوجہ سے عوام کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ قوت برداشت بھی جواب دیتی جا رہی تو دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے نہ صرف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں بلکہ مہنگائی کے خلاف دھرنے اور مارچوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چُکا ہے۔بے قابو افراط زر کے ستائے عوام کی بڑی تعداد میں ان مارچوں میں شریک ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے تھے۔
جیسا کہ میںنے پہلے بھی کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے ۔مگر میں اپنے کالم کی وساطت سے اپنے
قارئین کو تھوڑا ٹیکنیکلی بتانا چاہوں گی کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کس طرح کمی آئی۔پہلے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوںمیں بارہ روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا اور پھر دس روپے اس میں کمی کر دی گئی جو کہ عوام کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔ چلیں ہم اس بات پے بھی شاکر ہیں کہ دس روپے تو کم ہوئے۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے عوام کے لیے کچھ کیا جانا حوصلہ افزا ہے ۔تاہم معاملہ پھر وہی ہے یہ سارے اقدامات قلیل مدتی اور وقتی ثابت ہونگے کیونکہ پاکستان میں ایک بار مہنگائی کا سکیل اپ ہو جائے تو وہ کبھی نیچے کسی ڈگری کو دوبارہ ٹچ نہیں ہوتا۔اس وقتی اعلان سے عوام طویل مدت کے لیے مستفید نہ ہو سکیں گے۔ میرے خیال سے اصل فائدہ عوام کو تب ملے گااور ٹھوس تبدیلی اس وقت آئے گی جب عوام کو اپنا روزگار کمانے کے قابل بنایا جائے گا۔ اس کے لیے وزیراعظم نے یہ بھی بیان دیا کہ صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اوور سیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت اور اُنہیں ٹیکسوں سے استثنی مراعات کا اعلان کیا۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور اپنے ملک کی صنعتکاری کو فروغ دینے کے لیے یہ ایک بہترین قدم اُٹھایا۔مگر میں تھوڑا اس بات پہ بھی تھوڑی روشنی ڈالوں گی۔کہ بہت سے اوورسیز پاکستانی تو ایسے ہیں جو کہ مختلف ممالک میں نوکریاں کرتے ہیں اور یہاں پاکستان میں اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں اُن میں سے چند ایک ہونگے جو بھاری انویسٹمنٹ کرنے کے قابل ہونگے زیادہ تر تو نوکریاں کرتے ہیں۔اس سارے اقدام کے لیے اگر بہتر پالیسی بنا کر یہ اعلان کیا جاتا تو شاید اُس پہ عملدآمد بھی کیا جاتا ۔جیسا کہ آپ سب کو یاد ہو گا جب پاکستان میں زرداری دور میں بجلی کا بحران آیا تو بنگلہ دیش نے انڈسٹری ہولڈرز کو کیچ کیا اُن کو سستی بجلی اور ٹیکس سے استثنیٰ جیسی سہولیات دیں تو بہت سی انڈسٹری تیزی کے ساتھ بنگلہ دیش شفٹ ہوئی۔
اگر اس وقت بھی حکومت ادھر اُدھر کے پروجیکٹ پہ اربوں لگانے کے بجائے ایک سروے کریں جس میں سمال اور میڈیم انڈسٹری کے مسائل کیا ہیں اُن کو سپورٹ کریں خصوصاً جو انڈسٹری کسی وجہ سے بند پڑی ہے اُس انڈسٹری کو بھی بلاسود قرض دے کر کھڑا کیا جائے اس سے نہ صرف ملکی معیشت پہ مثبت اثرات پڑیں گے بلکہ عام عوام کے لیے روزگاربھی پیدا ہونگے۔
اب اگر بات کریں عدم اعتماد کی تو اقتدار میں رہنا کبھی کسی کو بُرا نہیں لگتا اپوزیشن کا اتحادیوں سے ملنا حکومت کے لیے صرف ایک الارمنگ سچویشن کا بنانا ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیونکہ گورنمنٹ بیساکھیوں پہ کھڑی ہے۔ اور اتحادی کبھی اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے ہاں ملاقاتوں میں اگر کچھ ڈسکس ہوا بھی ہوگا تو وہ صرف آنے والے عام انتخابات کی وقت سے پہلے پلاننگ ضرور ہو سکتی ہے اس سے زیادہ ملاقاتوں میں کچھ نہیں۔
ایک اہم بات جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے حکومت کا عوام میںغیر مقبول ہونے کا سبب بننے والے اُن کے خود کے فیصلے ہیں کیونکہ اس وقت ایک تاثر عوام میں بڑی تیزی سے جا رہا ہے کہ حکومت اپنے اوپر تنقید سُننے کا حوصلہ نہیں رکھتی اس طرح کے اقدامات حکومت کو راس نہیں آئیں گے کیونکہ 60ء کی دہائی سے ملکی تاریخ دیکھ لیں کہ جس حکومت نے بھی آزادی اظہار رائے پہ قدغن لگانے کی کوشش کی غیر مقبولیت اُس کا مقدر بنی۔
اس وقت موجودہ جو حکومتی اعلانات ہیں سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ اہم ہیں اگر حکومت اپنے کیے گئے اعلانات پہ 10%بھی عملدآمد کر لیتی ہے تو ہم اس بات سے پر امید ہو سکتے ہیں کہ ملک کو دوہرا فائدہ ہو گا ایک عام آدمی کی زندگی پہ مثبت اثر پڑے گا دوسرا ملکی معیشت پہ کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی مہنگائی کی کمی کا سبب بن سکتی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی کمی متوقع ہے۔ اگر حکومت ملکی انڈسٹری کو کھڑا کرنے کے لیے بہتر پلاننگ کے ساتھ انویسٹمنٹ کرا لیتی ہے تو آنے والا وقت ایک روشن وقت ثابت ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف ملکی معیشت بہتر ہوگی بلکہ عام آدمی کو روزگار بھی میسر ہونگے کیونکہ حکومتی اعلانات تو روشن مستقبل کا عندیہ دے رہی ہے خدا نہ کرے کہ یہ اب صرف باتوں تک محدود نہ رہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.