صاف شفاف پاکستان اور ہماری ذمہ داری

288

 

امیر ممالک نے ترقی کی معراج حاصل کر لی، اس منزل کے حصول کےلئے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ اور دیوار توڑ ڈالی، دنیا میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں صنعتوں کی آلودگی سے اوزون متاثر ہو گئی، دنیا کا ماحول تباہ ہو کر رہ گیا، وقت گزرتا گیا، مغرب ترقی کرتا گیا، آج ماحولیاتی آلودگی انسانی بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آگئی ہے ۔ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اُن ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں جنہیں اس ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ دس سال کے دوران دنیا بھر میں تیرہ کروڑ لوگ غربت کے شکنجے میں چلے جائیں گے۔ورلڈ بینک کہتا ہے کہ پوری دنیا کی معیشت ایک یرغمال بن جائے گی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق گھر سے باہر کی آلودگی کےباعث ہر سال 4.2 ملین فراد دنیا بھر میں مر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹ کہتی ہے کہ چند سال کے دوران 91 فیصد دنیا کی آبادی کو ایسی جگہ رہتی ہے جہاں ہوا کی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے صرف کوئی ایک ملک یا خطہ نہیں، بلکہ تمام براعظم ، خطے، صحرا، و باغ، و بہار، سب کچھ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ امیر ملک اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن غریب ملکوں کے لئے یہ مصیبتیں ہر روز بڑھتی جا رہی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے سبب پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ صنعتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد،اُن میں بنائی جانے والی منصوعات ، مصنوعات کا بے دریغ استعمال اور صنعتی فصلے اور کچرے کو ٹھکانے لگانے والا فرسودہ نظام ہیں۔ ان وجوہات کے سبب روزانہ کی بنیاد پر کچرے اور زہریلے کیمیکل کی بھاری مقدار زمین اور سمندر میں پھینکی جا رہی ہے جس کو آپ ” کچرے کاجزیرہ” (Ocean Dumpsیا Land Dumpsیا Dead zone) کہہ سکتےہیں ۔ اس بھی سنگین بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا Dead zone کراچی کے ساحل کے پاس ہے۔ایسے مقامات پر آبی حیات کا رہنا ناممکن ہے۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا اس وقت دنیا کی حالت اس شعر کی ایک عملی تصویر نظر آتی ہے، دنیا ایک دن یا چند سال میں یہا ں تک نہیں پہنچی بلکہ طویل عرصے تک دنیا کی ہیت کے ساتھ مسلسل کھیلا گیا ہے۔ قدرت نے اس دنیا کو حسین بنایا تھا۔ اس کائنات اور تما م عالمین کا خالق سورۃ الروم کی آیت نمبر 41 میں وارننگ دیتا ہے "خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ الله انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں” اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ انسان اپنی غلطیوں اور مفادات کےلئے دنیا کو تباہ و برباد کرتا ہے۔ ماحول کو صاف شفاف اور محفوظ رکھنا بطور ایک انسان ، مسلمان اور شہری ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سب سے اہم اور مفید اقدام یہ ہے کہ ایک طرز زندگی اپنایا جائے جس سے کم سےکم آلودگی پیدا ہو۔ اس کو آپ زیرو ویسٹ لائف اسٹائل یا 5R پر مشتمل طرز زندگی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے اور دوسروں کےلئے پانچ اصول طے کر سکتےہیں ۔ سب سے پہلا اصول ریڈیوس (Reduce)ہے، جس کا مطلب ہے کہ غیر ضروری خریداری اورچیزوں کے بے دریغ استعمال سے اجتناب کیا جائے۔دوسرا اصول (Recycle) یعنی ری سائیکل ہے، جس کے معنی ہیں کہ جوچیزں ری سائیکل نہیں ہو سکیں، اُن کا استعمال کم سےکم کر دیں۔ ان میں پلاسٹک کا استعمال کم کرنا اور آخری حد تک کچرے کی ری سائیکلنگ( Recycling) کو یقینی بنانا ہے۔ تیسرا اصول ری یوز (Reuse) کا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے، چیزوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں ۔ چوتھے آر کا مطلب، (Rot/Compost) سمجھا جائے، یعنی کچن اور باغیچے سے حاصل ہونے والی چیزیں روزمرہ کچرے کا 80 فیصد حصہ ہوتی ہیں، اس لئے ان کو سائنسی انداز میں قدرتی کھاد میں تبدیل کیا جائے۔ رزق کوکچرے کے ڈھیر میں پھینکنا خالق کائنات کا ناپسندیدہ فعل ہے۔ کمپوزٹنگ (Composting) کے نہایت سادہ عمل سے نہ صرف ہم رزق کی بے قدری سے بچ سکتے ہیں بلکہ ماحول کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی زمینی مخلوق مثلاً چھوڑے کیڑوں کی خوراک کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ مٹی سے حاصل شدہ چیزوں کو مٹی میں ہی جانا چاہیے۔ یہ عمل زمین کی زرخیزی کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔ایک اصول ریز اوئیرنیس (Raise Awareness) کا بھی ہے۔ یعنی ان تمام اصولوں کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کنے کی مسلسل کوشش کرتے رہنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ بھی سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 31 میں فرماتے ہیں، اے آدم کی اولاد! اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں،اس حکم کا تجزیہ کیا جائے تو ہمارا خالق ہمیں حکم دے رہا ہےکہ اپنے روز مرہ کے معاملات میں میانہ روی اختیار کریں۔ خریداروں کے رحجان پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت خوراک اور فیشن کی خریداری پر سب سے زیادہ اخراجات کر رہا ہے۔ مادی ہوس اور اشیاء کی ضرورت سے زیادہ طلب نے بے تحاشہ صنعت کاری اور پیداوار کے رحجان کو عام کر دیا ہے جس نے کرہ ارض کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جدید ترین فیشن کےڈریس ، پرس اور جوتے پہننے کی خواہش پر ہمارے پیارے پاکستان کے قدرتی وسائل مثلاً پانی اورکپڑے کے لیے کپاس کی فصل اگانے کے لئے کاٹے جانے والے کئی درختوں کے استحصال کی قیمت پر آتی ہے۔ فیشن انڈسٹری ڈریس اور فائبر کے لئے فصلوں کی آبپاشی کے لئے بڑے پیمانے پر پانی استعمال کرتی ہے۔  کاٹن  کی صرف ایک قمیض کے لئے تقریباً 3 ہزار لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بحیثیت قوم ہم نجانے کتنی ہی شرٹس بلا ضرورت صرف اس لئے خریدلیتے ہیں کہ ان دنوں اس رنگ یا ڈیزائن کا فیشن "ان”ہے۔ ماہرین کی رپورٹس اور حکومتی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو 2025 تک شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس لئے ضروری ہےکہ ہر وہ فعل اور چیز جو پانی کے ضیاع کا باعث بنتی ہے ،اُس سے ہر قیمت پر گریز کرنا چاہیے کیونکہ زمین پر پانی کے وسائل محدود ہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں غسل اور وضوکے دوران بھی پانی کے استعمال میں محتاط رکھنا چاہیئے۔ پانی ہماری زندگی اور بقاء کیلئے کتنا اہم ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں سورہ المؤمنون کی آیت 18 میں مل جاتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ انسان کو پانی کے تحفظ اور طلب کے انتظام کا فارمولا سمجھا رہے ہیں۔ یعنی ہمارا خالق فرماتا ہے” اور ہم نے ایک اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی نازل کیا پھر اسے زمین میں ٹھرایا اور ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں” ماحولیاتی آلودگی کس طرح آبی حیات تباہ کر رہی ہے، اس کا انازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ ٹیکسٹائل ملوں سے نکلنے والے زہریلے مادوں سے بھرا پانی صاف پانی میں مل کر مچھلیوں کے مرنے کا سبب بنتا ہے ، نہ صرف یہ بلکہ کینسر،ہیپاٹائٹس اور بچوں کو بیمارکرنے سمیت ان گنت بیماریاں کا سبب بنتا ہے۔ کپڑوں کی رنگائی کے سبب خارج ہونے والا زہریلا مادہ پانی کی آلودگی کا دوسرا بڑا سبب ہے۔ 3 مارچ 2022 کو نیروبی میں اقوام متحدہ کے تحت ایک اہم اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں دنیا کے سربراہان مملکت، ماحولیاتی تبدیلی کے لئےکام کرنے والے ایکٹوسٹس، ماہرین ماحولیات، ماحولیات کے وزراء اور اور 175 دیگر ممالک کے نمائندوں نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں تمام ممالک پر زور دا گیا ہے کہ وہ پلاسٹ سے پیدا ہونے والی آلودگی ختم کرنے کےلئے فوری اور جامع اقدامات کریں۔ ان ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ 2024 تک ایسا عالمی معاہدہ طے کر لیں گے جس کے تحت تمام ملک پلاسٹ کی آلودگی سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کا حصہ بنیں گے۔ قرارداد کے مطابق پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کو ایک ‘وبا’قرار دیا گیا ہے۔ آؤٹ ڈور ڈنر اور کھانے کے انتخاب بھی ہمارے ماحول کو متاثر کرتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کی بڑھتی ہوئی طلب نے گوشت اور ڈیری کے لئے مویشوں کی طلب میں اضافہ کیا ہے، حالیہ کچھ عرصے میں بڑے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کے علاوہ چھوٹے قصبوں میں بھی فاسٹ فوڈ کی کئی نئی دکانیں کھل گئی ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں بڑے ریسٹورنٹس نے اپنے سیٹ اپ بنانے کےلئے کھدائی کی ہے جس سے ایک طرف بڑی تعداد میں درخت کٹ رہے ہیں تو دوسری جانب مقامی آبادی کے کھانے پینے کے رجحانات بدل رہے ہیں۔ پھر مویشیوں کا نظامِ ہاضمہ ایسی گیسز خارج کرتا ہے جودنیا کا درجہ حرارت بڑھا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق بڑھتےہوئےدرجہ حرارت کےسبب پاکستان کے شمال میں موجود برف کے تودے اورگلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، یوں نہ صرف صاف پانی کےبڑے ذخائر ضائع ہو رہے ہیں تو دوسری جانب سیلاب اور بعد میں سمندری طوفان کا سبب بھی بن رہے ہیں۔خوراک کو ضرورت کے بجائے انٹرٹینمنٹ کے طور پر لینے سے مویشیوں کی افزائش اور کھیتی باڑی کے لئے بڑے پیمارے پر جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔ صرف 2015-2001 کے درمیان 300 ملین ہیکٹر سے زائد احاطہ صاف کیا گیا ہے۔لندن سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے جنگلات میں تین میں سے ایک درخت کو ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ جنگلات کے اعداد و شمار پیش کرنے والی ویب سائٹ "سی ای او ڈاٹ بز” کے مطابق پاکستان کے صرف 1.91 فیصد رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور دنیا بھرمیں ہمارا نمبر 173واں ہے۔ ہمارے ہاں جنگلات میں 76 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر اور دوسرے تیمر کے جنگلات ہیں۔ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔ کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات شہر کو قدرتی آفات سے بچانے کے لئے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو نشانہ بنایا تھا، تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا، لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبے میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے ، حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔ ماہرین متفق ہیں کہ جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس جگہ سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں اور وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے اور وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور پلاسٹک پر مشتمل کچرا بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پلاسٹک مصنوعات کی بلاوجہ اور بلا ضرورت خریداری ہے ۔ عالمی سطح پر پیدا ہونے والے پلاسٹک کے فضلے کا تقریباً 50 فیصد حصہ پیکنگ ہے۔ پلاسٹک کو گلنے میں 100 سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مچھلیاں اکثر پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے زرات یعنی مائیکرو پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھا جاتی ہیں جو اُن کے گوشت میں شامل ہو کر فوڈ چین کا حصہ بن جاتا ہے۔پلاسٹک کی وجہ سے آبی حیات شدید متاثر ہو رہی ہے۔ اپنے لائف سٹائل میں تھوڑی تبدیلی لا کر ہم بھی زیرو ویسٹ کلچر کو اپنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر لڑکیاں "زیرو ویسٹ لائف اسٹائل "کے اصول یعنی کاسمیٹکس اور دیگر استعمال کی ایسی اشیاء کے آخری حدتک کم سےکم استعمال اورکے ذریعے ماحولیاتی تبدیل کا مقابلہ کرنے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا اصول یہ ہے کہ ہمیں خود کو اور اردگرد کے لوگوں کو قدرتی ماحول کو درپیش خطرات اور انکی روک تھام کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ روزمرہ کی زندگی میں غیر ضروری اشیاء خصوصاً پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا۔ وہی اشیاء خریدنی ہوں گی جن کی واقعی گھر میں یا ذاتی حیثیت میں ضرورت ہے۔ ایسی مصنوعات خریدنے کی عادت اپنا نا ہو گی جو بار بار کام آسکیں ۔ مثلاً ٹشو کی جگہ نیپکن، پلاسٹک کے تھیلے کے بجائے کپڑے کے تھیلے اورٹوٹھ برش کے بجائےمسواک استعمال کریں ۔ڈائپر کے بجائے کپڑے کی نیپی کااستعمال کریں۔صحت مند اور مناسب خوراک یعنی صرف بھوک لگنے کی صورت میں اعتدال سے کھانے کی عادت کو فروغ دیں۔بازار میں کھانے پینے کی اشیاء کے لیے سفری مگ اور باکس اپنے ہمراہ رکھیں۔شیشہ، دھات، اور کاغذ سے بنی ہوئی اشیاء کااستعمال کریں۔ پلاسٹک کی بنی ہوئی چیزوں سے مکمل اجتناب کریں۔بچے ہوئےکھانے کو جانوروں کے چارے اور ایندھن کے لیے استعمال کریں۔کچن کےکچرےکو کمپوزٹنگ ( composting ) کےبہت سادہ طریقےسےقدرتی کھادبنائیں ۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرے تو ہم اپنے لیے ایک صاف ستھرا پاکستان حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے بھی سرخرو ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ کی نعمتوں کا ضیاع اور اپنے کسی بھی فعل سے اسکی باقی مخلوق کو تکلیف دینا گناہ ہے۔

 

تحریر:  زینب وحید

تبصرے بند ہیں.