سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے

28

اس وقت سیاست کی دنیا بے حد مضطرب نظر آتی ہے کہ ایک طرف حکومت بھاگی بھاگی پھر رہی ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف اِدھر سے اْدھر دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے حکومت اس لیے متحرک ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے اورحزب اختلاف اس لئے حرکت میں آئی ہے کہ ان حکمرانوں کو مزید حکمرانی سے روکا جائے۔فریقین اپنے اپنے اتحادیوں کے علاوہ دوسروں سے بھی مل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ غلط ہیں ہم ٹھیک ہیں۔ ان کی باتوں سے کوئی اثر لیتا ہے یا نہیں اس بارے کچھ معلوم نہیں یہ تو تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے پر ہی علم ہو سکے گا۔ فی الحال ہر کوئی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہوگی۔ یہ سیاسی منظر اس لئے ابھرا ہے کہ حکومت نے پونے چار برسوں میں وہ وعدے پورے نہیں کئے جو اس نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیے تھے کہ اب خوشحالی آئے گی برس ہا برس سے درپیش مسائل سے نجات ملے گی بنیادی انسانی حقوق کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں گی۔ سٹیٹس کو‘ کو ختم کر دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اب جب صورتحال مخدوش ہوئی ہے۔ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ آمرانہ طرز عمل سے پورے ملک میں ایک کہرام کی سی کیفیت ہے تو حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے میدان عمل میں آ کر اسے گھر بھجوانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ سر جوڑے بیٹھی ہیں اور آپس میں انتظامی عہدوں کی تقسیم کے لئے کوئی فارمولا طے کر رہی ہیں۔آصف علی زرداری سر براہ پی پی پی اپنی سیاسی دانش کا خوب مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے مگر دیگر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حکومت نہیں جائے گی وہ اپنا عرصہ اقتدار پورا کرے گی کیونکہ اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ میل ملاپ شروع کر دیا ہے۔ وہ انہیں اپنے اعتماد میں لے رہی ہے۔ یہ جو چودھری شجاعت سے عمران خان ملے ہیں اس سے انہیں کافی حوصلہ ملا ہے اس سے پہلے مونس الٰہی بھی انہیں تسلی دے چکے ہیں۔ اس طرح دوسری جماعتوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔جاوید خیالوی کہتا ہے کہ خان صاحب کی آنکھ دیر بعد کھلتی ہے یہ سلسلہ انہیں بہت پہلے شروع کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کے ساتھ سیاسی تعلقات کو مضبوط بناتے کچھ ان کی مانتے اور کچھ اپنی منواتے مگر انہوں نے انہیں نظر انداز کیا۔جب کبھی وہ ناراض ہوئے اور انہوں نے گلے شکوے کیے تو معاملات کو دیکھا گیا۔اب جب حزب اختلاف کے لوگ چوہدری برادران سے ملاقات کرکے گئے ہیں تو حکومت کے ذہن میں یہ بات آئی کہ وہ واقعی بدل ہی نہ جائیں لہذا ان سے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر گفتگو کی جائے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان اب بھی ان کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے مگر انہیں سمجھایا گیا کہ وہ سیاست کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صورتحال کو غور سے دیکھا جائے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے لہذا وزیراعظم کو اپنا رخ ادھر موڑنا پڑا ہے۔  بہرحال دیکھتے ہیں کہ وہ (عمران خان) کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اور کن شرائط پر ہوتے ہیں کیونکہ چودھری پرویز الہی کو حزب اختلاف پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کر چکی ہے۔حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔ویسے بھی
موجودہ وزیر اعلیٰ سے عوام کی غالب اکثریت ناخوش ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے حلقہ احباب کو ہی فائدہ پہنچا رہے ہیں علاوہ ازیں ان کی انتظامی پہلوؤں پر گرفت کمزور ہے جس کی وجہ سے سرکاری محکمے شتر بے مہار ہیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں رشوت عام ہے تھانوں کی حالت اگرچہ تھوڑی بدلی ہے مگر مجموعی طور سے کام اسی طریقے سے ہو رہا ہے لہذا وزیراعظم کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے سیاسی و انتظامی اعتبار سے وزیراعلیٰ تبدیل کر دینا چاہیے اس طرح وہ سکون میں رہیں گے مگریہ ہمارا قیاس ہے وگرنہ صورت حال بگڑ رہی ہے اب اگر حزب اختلاف ایوان کے اندر سے سیاسی منظرنامہ نہیں بدلتی تو باہر رہ کر اسے بدلنے کی کوشش کرے گی کہ پی پی پی نے سندھ سے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے اور اس مارچ‘ کے مارچ میں نتیجہ خیزثابت ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ حکومت مانے یا نہ مانے وہ زیادہ دیر تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکے گی کیونکہ حزب اختلاف منظم انداز سے آگے بڑھ رہی ہے لہذا ضرور کچھ ہونے والا ہے مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومت بھی اپنے رابطوں کو مضبوط و مستحکم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے جس طرح اس نے پٹرول بجلی کی قیمتوں میں کمی کی ہے جبکہ اسے عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر یہاں بھی اس میں اضافہ کرنا چاہیے تھا مگر لوگوں کے بدلتے تیور کے پیش نظر اس نے چھوٹے موٹے ریلیف دینے کا پروگرام بنایا ہے لہذا اب اور بھی ریلیف ملیں گے مگر شاید اب عوام اس کی اس دریا دلی کو شک کی نظر سے دیکھیں کہ وہ موجودہ حکومت سے یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی پھر وہ عمران خان کی کسی بات کو آسانی سے ماننے کو تیار نہیں کہ انہوں نے جو بھی کہا اسکے الٹ عمل کیا۔ بہر کیف دونوں فریق ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے۔ ہمیں حیرت ہے کہ وزیراعظم کو اپنی وزارت سے بڑی محبت ہو گئی ہے اسی لیے وہ ہاتھ پاؤں مارنے لگے ہیں اسے بچانے کے لیے۔ وگرنہ وہ تو جانتے ہیں ک اب عوام کی خدمت کا وقت گزر چکا ہے چلئے پھر بھی یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہ خود کو محفوظ بنائیں مگر حالات سازگار نہیں کیونکہ جب عوام کے ذہنوں میں کسی حکمران سے متعلق یہ خیال در آتا ہے کہ وہ ان سے مخلص نہیں تو پھر اس کے ریلیف کسی کام کے نہیں ہوتے۔ یہ ریلیف کیا ہوتے ہیں کہ دانستہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پہلے انہیں ختم کر دو بعد میں دے دو۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔حرف آخر یہ کہ حکومت کے جانے کے امکانات زیادہ ہیں اب اس نے ناراض دوستوں کو منانے کا سوچا ہے تو اس سے وہ ان کے دلوں کو مشکل ہی سے تسخیر کر سکے گی کیونکہ ’’وگدی ندی دا پانی انج جا کے مڑ نئیں آوندا جا کے جیویں جوانی‘‘ لہذا دیکھتے ہیں کہ اس ’’ سیاسی جنگ‘‘ میں کون کامیاب ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.