وزیراعظم گھبرا گئے ہیں

46

اپنے حامیوں کو نہ گھبرانے کامشورہ دیتے ہوئے لگتا ہے کہ خود وزیراعظم فل گھبرا گئے ہیں۔ اگر ان کے ڈیزل، پٹرول دس روپے لیٹر اور بجلی پانچ روپے یونٹ سستی کرنے کے اعلان کوا س کی ’ فیس ویلیو‘ پر لیا جائے تو اس کی تعریف بنتی ہے کہ اس سے لوگوں کو ریلیف ملے گا بلکہ اصل قربانی اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ یوکرائن کے دورے سے واپسی پر خود حکومتی وزیر کہہ رہے تھے کہ پٹرول کی قیمت بڑھے گی اوراس کے لئے تجویز دس روپے اضافے کی تھی گویا وہ اضافہ بھی روکا گیا اورمزید دس روپے کمی ہوئی یعنی عوام کو فائدہ بیس روپے لیٹر کا ہوا مگر صحافی اورتجزیہ کار کا تعلق بیانات کی فیس ویلیو سے نہیں ہوتا، یہ درست ہے کہ ’ ہی سیڈ ، شی سیڈ‘ بھی صحافت کا حصہ ہے اور آج کے اخبارات نے وزیراعظم کے خطاب کو شہ سرخی ہی بنایا ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ جب عالمی منڈی میں قیمت کم ہو رہی تھی تو جناب عمران خان قیمت کم کرنے کے بجائے بڑھانے کی سمریوں پر دستخط کررہے تھے اور جب قیمت بڑھ رہی ہے تو کم کر رہے ہیں، کیا انہوں نے اپنی کوئی الگ اکنامکس ایجاد کر لی ہے؟
جب ایک حکمران کسی بڑے منصوبے کا اعلان کرتا ہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس کی ادائیگی اپنی جیب سے کرے گا جیسے نواز شریف نے موٹرویز بنائیں، ائیرپورٹس بنائے یا بجلی کے کارخانے، یہ سب کچھ قومی خزانے سے ہی بنا۔ جب ہمارے پی ٹی آئی کے دوست یہ کہتے ہیں کہ وہ ان منصوبوں پر شکریہ نواز شریف کیوں کہیں تو اب یہ سوال بھی بنتا ہے کہ کیا یہ خسارہ جناب عمران خان اپنی جیب سے پورا کریں گے کہ انہیں شکریہ کہا جائے۔ اس وقت یہی غور کرنے کا بنیادی اور اہم نکتہ ہے کہ جب ہم پہلے ہی تجارتی خسارے کا شکار ہیں اور ہمارا سرکلر ڈیٹ ہر مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی غنڈہ گردی کے باوجود بڑھتا چلا جا رہا ہے تو یہ ریلیف کس کھاتے سے پورا کیا جائے گا۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا ہو گا اور ضروری اخراجات پر کٹ لگانا ہو گا اور دوسرے آپ کو اس گھاٹے کو پورا کرنے کے لئے دوسرے ذرائع سے ٹیکس اکٹھا کرنا پڑے گا کیونکہ آپ پہلے ہی ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہ جانے والی ریاستوں میں سے سرفہرست ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے اخراجات قرضے لے کر پورے کرتے ہیں۔ یہ وقتی طورپر خوشی کی بات ہے کہ پٹرول اور بجلی سستے ہو گئے مگر ایک لمبے عرصے کا دکھ یہ ہے کہ جناب عمران خان نے سیاسی دباؤ کم کرنے کے لئے معیشت پر دباؤ بڑھا دیا۔ پی ٹی آئی نے اپنا فائدہ کیا اور پاکستان کا نقصان کر دیا کیونکہ اس وقت اس کی حکومت ہے، وہ فیصلہ ساز ہے۔
پٹرول پر تو نہیں مگر بجلی پر ایف اے سی یعنی فیو ل ایڈجسٹمنٹ چارجز کا فارمولہ چلتا ہے۔ ابھی جس شام وزیراعظم بجلی کی قیمت میں پانچ روپے یونٹ کمی کا اعلان کر رہے تھے اسی صبح حکومت کا ایک بااختیار ادارہ وزیراعظم کی منظوری سے بجلی کی قیمت میں پانچ روپے پچانوے پیسے کا اضافہ کر رہا تھا یعنی اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اضافے کے صرف پچانوے پیسے ہی ادا کرنے ہوں گے مگر سوال اگلے مہینوں کا ہے کیونکہ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ بجٹ تک تیل اور بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے تو سوال یہ ہے کہ ہم نے کون سا سستا تیل لے کر ذخیرہ کر رکھا ہے اور بجلی کی فی یونٹ کاسٹ کون سی کم ہونے جا رہی ہے لہٰذا ہم اس خسارے کو کہاں سے پورا کریں گے۔ گمان غالب ہے کہ اگلے مہینوں میں بجلی کے یہ پانچ روپے بھی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں ہی وصول ہوں گے اور حکومت اپنے لئے ایک اعلان کے بعد ہر مہینے کی ایک نئی بدنامی مول لے لے گی۔ پٹرول اور تیل سستے کرنے کا جینوئن ایک ہی طریقہ ہے کہ پٹرول سستا خریدا جائے اور عین وقت پر اس کی خریداری نہ کی جائے۔ عالمی منڈی میں قلیل مدتی اور طویل مدتی خریداری کے ریٹس الگ ہوتے ہیں اور اگر اس وقت سودے کر لیتے ہیں جب عالمی منڈی میں تیل سستا ہو تو آپ فائدے میں رہتے ہیں۔ بجلی کی قیمت کم کرنے کاواحد طریقہ یہ ہے کہ اس کی فی یونٹ پروڈکشن کاسٹ کم کی جائے اوراس کے لئے ہمیں ہائیڈل کی طرف جانا ہو گا۔ اب بجٹ تک تو ہائیڈل آنے سے رہی تو یہ خسارہ بھی عوام ہی کی جیب سے نکلے گا صرف اس جیب کی طرف آنے کے ہاتھ کا راستہ بدل جائے گا ۔ ایک راستہ جیب کترے کا بھی ہوتا ہے، وہ جیب کاٹ لیتا ہے اور پتا ہی نہیں چلتا۔ جب جیب خالی ملتی ہے تو عام آدمی چیخنے لگتا ہے، رونے لگتا ہے مگر تب کچھ نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم نے یہ اعلانات کیوں کئے ہیں تو اس کا سیاست کے طالب علم کے طور پر صاف اور واضح جواب ہے کہ وزیراعظم گھبرا گئے ہیں۔ میں گذشتہ روز رکن اسمبلی جناب یاسین سوہل کے صاحبزادے حارث سوہل کی دعوت ولیمہ میں تھا وہاں نواز لیگ کے ایک متحرک رہنما اور رکن اسمبلی مجھے بتا رہے تھے کہ ان کے پاس عدم اعتماد کے لئے نمبرز نہ صرف پورے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہو گئے ہیں مگر اس وقت آئینی اور قانونی سوا ل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر کامیاب ارکان جب اپنی پارٹی کے فیصلے کے خلاف عدم اعتماد کریں گے تو وہ نااہل ہوجائیں گے، اس کا راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے جو ا ن کے مطابق مل گیا ہے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو وزیراعظم سے لاہور میں ملاقاتوں کے لئے ساہیوال، ملتان اوربہاولپور ڈویژن کے ارکا ن کو فون کالزکی جارہی تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے مطالبا ت اوردرکار ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات بھی ساتھ لے کر آئیں۔ یہ سب ظاہر کر رہا ہے کہ جناب عمران خان گھبرا چکے ہیں۔یہ اپوزیشن کی وہ کامیاب سیاست ہے جس نے ان کے اوپر سے چھتری اتار لی ہے اور انہیںمیدان میں اپنے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ اپوزیشن کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ عمران خان کو اب اپنی صلاحیتوں کے ذریعے مقابلہ کرنا ہو گا کہ پشاور سے آنے والی فون کالز کو بھی روکا گیا ہے۔ اسلام آباد کا مزاج بدل چکا ہے۔ مجھے پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کی کامیابی اور ملکی سیاست میں مماثلت نظر آ رہی ہے۔ گیم لاہور اورملتان والوں کے ہاتھ میں جا چکی تھی، کراچی اورکوئٹہ آؤٹ ہوچکے تھے اور اسلام آباد بھی باہر ہو چکا تھا۔ لاہوروالوں کے کئی برسوں سے گردش میں ستارے عروج پر آئے اور انہوں نے میدان مار لیا۔
وزیراعٖظم نے ایک مرتبہ پھر انگلینڈ، ترکی اور انڈیا وغیرہ سے پٹرول کی قیمتوں سے موازنہ کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ مہنگائی کا تعلق کبھی قیمتوں سے نہیں ہوتا بلکہ کمائی سے ہوتا ہے۔ وہ ممالک ہم سے دوگنا ، چار گنا یا دس گنا کما رہے ہیں تو ان کے لئے ہم سے کچھ روپے زائد پٹرول ہرگز مہنگا نہیں ہے جیسے آپ روزانہ دس ہزار کماتے ہیں تو پانچ سو کا برگر آپ کے لئے مہنگا نہیں لیکن اگر آپ کماتے ہی ایک ہزار ہیں تو یہ آپ کی آمدن کا نصف ہے۔ وزیراعظم نے پوچھا کہ اپوزیشن مہنگائی کم کرنے کا طریقہ بتائے تو یہ طریقہ میں اکنامکس کا ماہر نہ ہونے کے باوجود بتا دیتا ہوں کہ ڈالر کی قیمت میں پچاس روپے تک کمی لائیں۔ ٹیکسوں کوریشنلائز کریں، ایف بی آر کی صلاحیت بڑھائیں۔ قرضوں پر انحصار کم کریں اور بجٹ خسارہ گھٹائیں۔سرمایہ کاری ،جی ڈی پی اور زرعی پیداوار بڑھائیں۔ تیل اور گیس کی امپورٹ کا میکانزم بہتر کریں۔کرپشن کم کریں اور کارکردگی میں اضافہ کریں مگر حکومت کے ساڑھے تین برس کی کارکردگی بتاتی ہے کہ وہ یہ سب نہیں کرسکتی۔عمران خان اس وقت حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں، اپوزیشن کی گاڑیوں نے ریس بڑھا دی ہے اور حکومتی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عمران خان واضح طو ر پر گھبرائے ہوئے لگ رہے ہیں۔ ان کی گاڑی کا وہی حال ہو سکتا ہے جو ایک گھبرائے ہوئے ڈرائیور کی گاڑی کا ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.