تحریک عدم اعتماد : سیاسی وفاداریاں بدلنے والے 49 حکومتی ارکان اپوزیشن کا ٹارگٹ

53

 

اسلام آباد: اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے کوشاں ہیں ۔ اپوزیشن قائدین حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم این ایز سے بھی رابطے میں ہیں ۔رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارا فوکس اتحادیوں سے زیادہ حکومتی ارکان پر ہے۔

 

نیو نیوز کے مطابق اس وقت قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس 179 اور اپوزیشن کے پاس 162 ووٹ ہیں۔ تحریک انصاف 155 ، ایم کیو ایم کے 7 ، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، 5 ، جی ڈی اے کے 4، 2 آزاد اور آل پاکستان مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن حکومتی اتحاد میں شامل ہے۔

 

اپوزیشن کے پاس مسلم ن کی 84 ، پیپلز پارٹی کی 56 ، متحدہ مجلس عمل کی 15 ، بی این پی مینگل کی 4 ، آزاد 2 اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک سیٹ ہے۔

 

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی روزانہ کہتے ہیں کہ 25 افراد کے وہ نام جانتے ہیں جو عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے اگر یہ 25 ارکان اپوزیشن کی طرف آجائیں تو اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 187 ہوجائے گی جبکہ حکومت کے پاس 155 رہ جائیں گے۔

 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے 49 ایم این ایز ایسے ہیں جو سیاسی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں ۔ ان میں بونیر شیر اکبر خان ہیں جو پہلے جماعت اسلامی میں تھے۔ بٹگرام سے پرنس محمد نواز الائی کا پہلے تعلق مسلم لیگ ق سے تھا۔ ہری پور سے تعلق رکھنے والے عمر ایوب مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں میں رہ چکے ہیں۔

 

انجینئر عثمان ترکئی کا تعلق صوابی سے ہے اور تحریک انصاف میں آنے سے پہلے وہ اے جے آئی پی کا حصہ تھے۔ پرویز خٹک جو نوشہرہ سے ایم این اے ہیں پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی شیئرپاؤ دونوں جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔ پشاور سے منتخب ہونے والے نور عالم خان بھی پہلے پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔

 

چودھری برادران کے قریبی رشتے دار اٹک سے ایم این اے میجر ریٹائرڈ طاہر صادق بھی مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں میں رہ چکے ہیں۔ راولپنڈی سے غلام سرور خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا حصہ رہے۔ چکوال سے ذوالفقار علی کان دلہہ مسلم لیگ ن کا حصہ رہے ہیں ۔ جہلم سے فواد چودھری اے پی ایم ایل، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی تین جماعتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔

 

جہلم کے چودھری فرخ الطاف مسلم لیگ ق، حافظ آباد سے شوکت علی بھٹی مسلم لیگ ق، سرگودھا سے عامر سلطان چیمہ مسلم لیگ ن اور ق لیگ ، بھکر سے ثناء اللہ مستی خیل مسلم لیگ ن اور ق لیگ ، بھکر سے افضل خان ڈھانڈلہ مسلم لیگ ن ، چنیوٹ سے غلام محمد لالی مسلم لیگ ن اور فیصل آباد سے عاصم نذیر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں تھے۔

 

فیصل آباد سے نواب شیر وسیر پیپلز پارٹی ، فیصل آباد سے ہی رضا نٖصراللہ مسلم لیگ ن، فیض اللہ کموکا پیپلز پارٹی ، راجہ ریاض پیپلز پارٹی ، ٹوبہ ٹیک سنگھ  سے ریاض فتیانہ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق ، جھنگ سے صاحبزادہ محبوب سلطان مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن ، جھنگ سے غلام بی بی بھروانہ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کا حصہ رہی ہیں۔

 

لاہور سے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود پہلے پیپلز پارٹی کا حصہ تھے ،ملک کرامت کھوکھر بھی پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ قصور سے سردار طالب نکئی ق لیگ اور جونیجو لیگ میں رہے ہیں ۔ خانیوال سے فخر امام مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا بھی حصہ رہے۔

 

ملتان سے 4 ارکان اسمبلی احمد حسین ڈہیٹر (پیپلز پارٹی)، ملک عامر ڈوگر (پیپلز پارٹی)، شاہ محمود قریشی (مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ) اور رانا قاسم نون (مسلم لیگ ن) کا حصہ رہ چکے ہیں۔ لودھراں سے میاں شفیق پیپلز پارٹی میں تھے ، وہاڑی کے طاہر اقبال مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن دونوں میں رہ چکے ہیں ، وہاڑی سے ہی اورنگزیب کھچی مسلم لیگ ق سے تحریک انصاف میں آئے۔

 

بہاولپور سے فاروق اعظم ملک نیشنل الائنس اور پیپلز پارٹی کا حصہ رہے، رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار مسلم لیگ ق اور ن لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ جاوید اقبال وڑائچ پیپلز پارٹی سے  پی ٹی آئی کا حصہ بنے۔ مظفر گڑھ سے مخدوم باسط سلطان نیازی پہلے مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔

 

لیہ سے نیاز احمد جھکڑ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق ، ڈی جی خان سے خواجہ شیراز محمود مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی ، امجد فاروق خان کھوسہ مسلم لیگ ن، سردار محمد خان لغاری  مسلم لیگ ق اور سردار محمد جعفر خان لغاری نیشنل الائنس ، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کا حصہ رہ چکے ہیں۔

 

راجن پور سے نصراللہ دریشک مسلم لیگ ق ، جیک آباد سے میاں محمد سومرو مسلم لیگ ق ، کراچی شرقی سے عامر لیاقت حسین  متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی جنوبی سے عبدالشکور شاد پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔

 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان 49 افراد پر محنت کر رہی ہیں اور انہیں امید ہے کہ ان میں سے 25 سے 30 ارکان کو توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

تبصرے بند ہیں.