دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی

17

روس اور یوکرین آپس میں لڑ پڑے ہیں تو کیوں کیونکہ یوکرین روس کے خلاف امریکہ سے مل کر سازش کر رہا تھا اسے نیچا دکھانے کے لیے نیٹو میں شامل ہونا چاہ رہا تھا لہذا یہ بات روس کو کسی طور بھی قابل قبول نہیں تھی اس نے یوکرین حکومت کو سمجھایا کہ وہ ایسا نہ کرے ہم ہمسایہ ہیں ہمیں مل کر رہنا چاہیے مگر وہ بضد تھا کہ اسے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر لوریاں لینی ہے۔ اس پر روسی حکومت نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اسے نہیں چھوڑے گا اور اگر چھوڑے گا تو پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہو گا۔ ادھر ہمارے ہاں بھی دو طاقتیں حزب اقتدار اور حزب اختلاف باہم دست و گریباں ہیں ان کے مابین جنگ تو اقتدار سے متعلق ہی ہے کہ ایک فریق اسے بچانا چاہتا ہے تو دوسرا اسے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر حزب اختلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو بتا رہی ہے کہ حکومت نے ان کا بھرکس نکال دیا ہے انہیں اس وقت بدترین مہنگائی کا سامنا ہے قانون کی حکمرانی خواب و خیال بن کر رہ گئی ہے ادارے منہ زور ہو گئے ہیں انہیں کسی کا کوئی خوف نہیں رہا ایسی صورت میں وہ خاموش نہیں رہ سکتی اور موجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے پوری کوشش کرے گی۔ اس حوالے سے سے پچھلے ایک دو ماہ سے سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر پہنچا ہوانظر آتا ہے۔ ہر روز ایک نیا ’’انکشاف‘‘ ہوتا ہے کہ حکومت کے اتنے لوگ اس سے ناراض ہو کر ہماری طرف (حزب اختلاف) آگئے ہیں حزب اقتدار کہتی ہے کہ یہ سب غلط ہے اس کے اتحادی اس کے ساتھ ہی ہیں۔ سیاستدانوں کی ملاقاتوں سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے سیاست میں ایسا ہوتا ہے پھر ہمیں گفتگو کرتے رہنا چاہیے اس سے معاملات میں بہتری آتی ہے مگر حقیقت یہ ہے جو تجزیہ نگار بتا رہے ہیں کہ حکومت کے جانے کے دن قریب آچکے ہیں کیونکہ اپوزیشن اپنے نمبرز پورے کر چکی ہے اب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس عددی اکثریت ہے تو وہ دیر کیوں کر رہی ہے مگر کہتے ہیں کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ حزب اختلاف مناسب موقع دیکھ کر میدان عمل میں آ جاے گی اس سے پہلے وہ کبھی بھی ’’متحرک‘‘ نہیں ہوگی لہذا کہا
جاسکتا ہے کہ حکومت ایک سیاسی بھنور میں پھنس چکی ہے اب وہاں سے باہر آتی ہے یا نہیں کب آتی ہے کب نہیں اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا مگر ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت ابھی نہیں جائے گی کیونکہ اسے یقین ہے کہ حزب اختلاف کوطفل تسلیاں مل رہی ہیں اور کچھ نہیں لہذا وہ اپنی مدت پوری کرے گی مگر وہ اس میں کیا کرے گی ہمیں نہیں لگتا کہ وہ کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے سکے گی کہ جس سے ہمارا ہر مسئلہ حل ہوجائے گا۔ گزشتہ پونے چار برس میں تو وہ مثالی کارکردگی نہیں دکھا سکی لہذا آنے والے دنوں میں بھی وہ کچھ نہیں کر پائے گی۔ اس تناظر میں ضروری ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا وہ انتظامی ڈھانچے کو ٹھیک نہیں کر سکی مہنگائی نے غریب آدمی کو زندہ درگور کردیا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف ہونے کے باوجود وہ اس پر قابو نہیں پا سکی اس کے قریب اور دور کے ساتھیوں نے جہاں تک ممکن ہوا بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اب یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس حکومت کے دور میں بدعنوانی آخری حد عبور کر چکی ہے رشوت دگنی ہو گئی ہے تھانے ہوں پٹوار خانے ہوں یا دوسرے ادارے ان میں جو اندھیر مچا ہوا ہے وہ ناقابل بیان ہے لہذا حکومت کا گھر جانا ہی بنتا ہے مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشی و سماجی اعتبار سے صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے اور عوام پر قرض کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ان کی برداشت جواب دے گئی ہے تو ایسے میں کوئی نئی حکومت کیسے عوام کو کوئی بڑا ریلیف دے سکے گی لہذا حزب اختلاف کو حکومت ہٹانے کے لئے عوام کو ذہنی طور سے ہی نہیں ان کے مسائل اور مشکلات کے حوالے سے بھی تیار کرنا چاہیے کیونکہ کل جب وہ اقتدار میں ہوگی تو لازمی ہے لوگ اس پر نگاہیں جمائے ہمہ تن گوش یہ سننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ وہ ان کی غربت کے خاتمے کے لیے کیا اعلان کرتی ہے اگر وہ عمران خان کو ہی کوستی رہی اور یہ سمجھے گی کہ عوام اس پر ہی اکتفا کریں گے اور اسے کسی بھی معاملے میں مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے تو یہ اس کی خوش فہمی ہوگی مگر یہ بھی ہے کہ ہماری کوئی بھی حکومت ہو اسے کسی عوامی ردعمل کی ذرا پروا نہیں ہوتی کیونکہ وہ آشیر بادی حکومت ہوتی ہے لہذا اسے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا چلیں اگر یہ بات غلط ہے تو پھر یہ جو عوام کی زندگیوں میں زہرگھولا جاتا ہے وہ کیوں ہے؟ لہٰذا اسے اپنی آشیر بادیوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں ان پر عمل کرنا ہے اس میں کوئی کوتاہی ان کو غصہ دلاتی ہے مشتعل کرتی ہے جو صورت حال کو کشیدہ کر دیتی ہے پھرطبل تبدیلی بج جاتا ہے اور سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچ جاتی ہے لہذا جب تک ہمارا سیاسی کلچر تبدیل نہیں ہوتا کچھ نہیں ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر اقتدار کا حصول رہے گا عوام کی خدمت ان کے مسائل و مشکلات پس پشت ڈالے جاتے رہیں گے مگر یہ پہلو بھی قابل غور ہونا چاہئے کہ عوام نے بھی یہ سوچ لیا ہے کہ سوائے ووٹ ڈالنے کے اور کچھ نہیں کرنا از خود کوئی احتجاج نہیں کرنا یہ کام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا ہے لکھنے والوں کا ہے اور دانشوروں کا ہے لہذا حکومتیں اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی باریاں لیتی چلی آ رہی ہیں کرنا کرانا کسی نے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح چوہتر برس بیت گئے ہیں مگر ہمیں ابھی تک وہ صبح طلوع ہوتی نظر نہیں آرہی جو ہمیں جینے کا وہ راستہ دکھاتی ہو جو خوشیوں اور خوشحالیوں کی طرف لے جاتا ہو۔۔ یہاں ہم اس پہلو کے بارے میں بھی یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت مقبولیت کے اوپری درجے پر کھڑی دکھائی نہیں دے رہی وجہ اس کی یہی ہے کہ کسی نے کبھی بھی اپنے کارکنوں کو اہمیت نہیں دی ان کی سیاسی تربیت نہیں کی بڑے عہدوں سے نہیں نوازا گیا لہذا آج کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ جو عوامی ایشوز پر منظم احتجاج کر سکے ویسے بھی یہ جماعتیں ایسا کوئی احتجاج نہیں کرتیں جس سے کارکنان کا مرہون منت ہونا پڑے تاکہ وہ شریک اقتدار کے لئے ضروری نہ قرار پاجائیں بہرحال اب دیکھ لیجئے جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے تو پھر کیوں نہ ’’آزاد سیاست‘‘ کی جائے اور صحیح معنوں میں سیاست کاری کر کے اپنا قد بڑھایا جائے اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں بہت ہو چکا۔ دنیا بدل رہی ہے نئے بلاکس بن رہے ہیں اورجب ہم اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرچکے ہیں تو اس کے پیش نظر ہمیں عوامی سیاست کرنا ہوگی روائتی طرز سیاست وحکمرانی کو خیر باد کہنا ہو گا اپنے مفادات کو دیکھنا ہو گا روس ہو یا چین ان کے ساتھ تجارت بھی کرنا ہے اپنے مسائل پر بھی بات کرنی ہے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے !

تبصرے بند ہیں.