ملکی دفاع کے لیے انگریزی چینلز اور شوز کی ضرورت

15

پاکستان کی ہسٹری کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلی ویژن میڈیا کی ترقی فوجی حکمرانوں اور پاک بھارت تنازعات کی مرہونِ منت رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ اِسے غیرتحقیقی جملہ سمجھیں۔ لہٰذا ٹی وی اور چینلز کے آغاز اور فروغ پر سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے پہلے سالوں میں مارشل لاء ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا طوطی بولتا تھا۔ انہی کے زمانے میں 26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا۔ پی ٹی وی آنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی پاک بھارت سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں جن کا انجام ستمبر 1965ء کی پاک بھارت بڑی لڑائی کی صورت میں ہوا۔ جب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے حکومت سنبھالی تو اُس وقت ملک میں ٹی وی زیادہ عام نہیں تھا۔ ٹی وی سیٹ کی قیمت زیادہ تھی اور لوگوں کو ٹی وی دیکھنے کا خبط بھی نہیں تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت یعنی 80ء کی دہائی میں پاکستان میں ٹی وی بہت عام ہوگیا، اس کی دستیابی بہت آسان ہوگئی اور قیمت کم ہو جانے کے باعث لوگ ٹی وی کی خرید کی طرف متوجہ ہوئے۔ گویا جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ٹی وی ہرامیر اور غریب کے گھر میں آچکا تھا۔ اُس دوران ٹی وی پر ایسے سحرانگیز ڈرامے ٹیلی کاسٹ کیے گئے جن کو دیکھنے کے لیے پورے پورے شہر کام کاج چھوڑ بیٹھتے۔ مثال کے طور پر پی ٹی وی کے شہرئہ آفاق ڈرامے ’’وارث‘‘ کی نشریات کے دوران بھارت کے وہ شہر جہاں پی ٹی وی کی نشریات جاتی تھیں مکمل سناٹے میں ڈوب جاتے اور سڑکوں پر آمدورفت میں کمی کرفیو کی طرح کی ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پی ٹی وی کے خبرنامے کا بڑا حصہ بھارت کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی خبروں پر مشتمل ہوتا۔ جب 1999ء میں کارگل کا معرکہ پڑا تو اس کے ماسٹر مائنڈ جنرل پرویز مشرف کے ذہن میں بھارتی چینلز نے ایک سوچ پیدا کردی۔ اُس وقت بھارت کے ہاں چوبیس گھنٹے ہفتے کے ساتوں دن لائیو پرائیویٹ ٹی وی چینلز بہت رواج پاچکے تھے۔ دوسری طرف پاکستان میں
صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی اور ایک نیم سرکاری ٹی وی چینل شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک تھے اور بھارت کی طرح یہاں نجی ٹی وی چینلز کا دور دور تک کوئی وجود نہیں تھا۔ کارگل کی لڑائی پر بھارتی چینلز نے اپنے موقف کو جس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کیا اُس سے جنرل پرویز مشرف نے سبق سیکھا۔ جب جنرل پرویز مشرف اکتوبر 1999ء کے بعد برسراقتدار آئے اور اُن کی سربراہی میں پاکستان میں چوتھا مارشل لاء لگ گیا تو انہوں نے بھارتی چینلز سے سیکھے جانے والے سبق پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں نجی چینلز کو عام کرنے کے لیے بیشمار لائسنس جاری کئے۔ اس کے علاوہ ایف ایم ریڈیو کے تصور کو بھی بہت فروغ دیا گیا۔ یوں ان کے دور میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ایک جدید اور نئے دور میں داخل ہوگیا جو مکمل طور پر لائیو ٹیلی کاسٹ پر مبنی تھا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن اور الیکٹرانک میڈیا کے آغازاور ترقی کے حوالے سے مندرجہ بالا حقائق جاننے کے بعد یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ فوجی حکمرانوں نے پاکستان کے لوگوں کی رائے عامہ کو اپنے موقف کے حق میں رکھنے کے لیے ٹیلی ویژن چینلز کو ایک ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کا اِن سائیڈ تجزیہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی کیونکہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کولڈوار، جنرل محمد ضیاء الحق نے افغان وار اور جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد کی افغان جنگ میں امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اِن اقدامات کے لیے لوگوں کے ذہنوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ٹیلی ویژن چینلز اور الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دینا اور ان کا بھرپور استعمال کرنا ضروری تھا۔ گویا پاکستان میں ٹیلی ویژن اور چینلز کی ترقی اُس وقت امریکی مفاد میں بھی تھی۔ چونکہ اُس وقت کے پالیسی سازوں کا ہدف ٹیلی ویژن اور چینلز کے ذریعے مقامی آبادی کو متاثر کرنا تھا اس لیے لاتعداد میڈیا ہائوسز کے 24/7 پروگرام اردو اور پاکستانی زبانوں میں ہی شروع کیے گئے۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس دوران انٹرنیشنل لینگوئج میں کچھ انگریزی چینلز چلانے کی کوشش کی گئی لیکن کم ریٹنگ کی وجہ سے اشتہارات نہ ملنے کے باعث وہ چینلز بند ہوگئے۔ ہمارے ہاں الیکٹرانک چینلز اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک منافع بخش کاروبار اور گلیمر کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں انگریزی چینلز بند ہونے کے نقصانات کا کسی نے جائزہ نہیں لیا۔ اب جبکہ ففتھ جنریشن ہائبرڈ وارفیئر کی تھیوری آچکی ہے اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جہاں انٹرنیشنل لینگوئج میں اپنا موقف انٹرنیشنل کمیونٹی تک پہنچانا سائیکولوجیکل وارفیئر کا اہم ترین جزو ہے وہیں دوسرے ملکوں کی عوام تک براہِ راست اپنی بات پہنچا کر انہیں اپنی خارجہ پالیسی کے حق میں قائل کرنا بھی آسان ہے۔ اس کا شدید مظاہرہ پلوامہ اٹیک کے بعد پاک بھارت ایل او سی تنازع کے دوران دیکھنے کو ملا جب بھارتی چینلز نے اپنے انگریزی پروگراموں کے ذریعے پاکستان کے خلاف پوری دنیا تک براہِ راست اپنا موقف انٹرنیشنل لینگوئج انگریزی میں پہنچانے کی کوشش کی جبکہ پاکستان کے پاس اس طرح کا کوئی موثر پلیٹ فارم موجود نہیں تھا۔ پاکستان کا موقف انٹرنیشنل لینگوئج میں صرف سرکاری پریس کانفرنسوں یا سرکاری بیانات کی صورت میں پہنچا جبکہ بھارت میں یہ کام نجی چینلز کررہے تھے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی میں سرکاری موقف سے زیادہ نجی میڈیا کی گفتگو کو اہمیت دی جاتی ہے جسے حقیقی عوامی آواز سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے دفاع اور خارجہ پالیسی کے موقف کو دنیا میں موثر انداز سے پہنچانے کے لیے پاکستان میں انگریزی نجی چینلز کو خصوصی طور پر فروغ دیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں جتنے اردو یا مقامی زبانوں کے نجی چینلز موجود ہیں وہ روزانہ کم از کم ایک شو انگریزی لینگوئج میں ضرور کریں۔ جہاں ہمارے لیے انگریزی چینلز اور شوز ضروری ہیں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ان پروگراموں میں مقامی سیاست کی بجائے صرف ملک سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل امور پر ہی بات کی جائے تاکہ دنیا ہماری مقامی سیاست کی افراتفری کی بجائے ملکی دفاع کے لیے ہماری متحد آواز کو سن سکے۔

تبصرے بند ہیں.