اقبالؒ پاکستان میں اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے تھے

24

دنیامیں موجود کل نظام ہائے حیات کو دوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ایک انسانی عقل و فہم سے بنائے گئے نظام اوردوسراآسمان سے نازل ہونے والاآفاقی نظام۔انسانی بصیرت دھوکہ کھاسکتی ہے اورکھاتی ہے جب کہ وحی کی تعلیمات میں خالق کابنایاہوانظام ہے جواس نے اپنی مخلوق کے لیے نازل کیا۔اقبالؒ بھی آفاقی نظام کے حامی تھے۔
ہماری تاریخ ادب میں اقبالؒ آزادی وطن کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ اس حوالے سے انکے سازسخن کے نغمات حریت اور استقلال ہیں لیکن وہ اسلام کے بغیر آزادی وطن کا تصور بھی نہ کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے غیورانہ لہجہ میں کہا: ’’اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے۔‘‘ علامہ اقبالؒ نے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ محض اس لیے کیا تھا کہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے نتیجہ میں ہر شخص کو معاش کی ضمانت مل سکتی ہے۔
ادبی نشست، قلم کاروان منعقدہ  15فروری میں سیدانصرگیلانی نے اپنے مقالے میں بتایاکہ انسانی معاشروں میں سیاسی نظام وقت کے ساتھ ساتھ بلوغت حاصل کرتارہا۔پہلے انسانی خدائی نظام تھا،پھربادشاہی و شہنشاہی نظام آیا،پھرقبائلی و خاندانی حکمرانی کانظام آیا،ان تمام کے توڑ کے لیے اور ایک اللہ تعالی کی عبودیت کے لیے انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے لیکن آخری نبیؐکے ساتھ مکمل سیاسی و دفاعی وسماجی نظام نازل ہوا۔ مغرب کی سیاست آفاقی تعلیمات کی برکت سے محروم ہے اوراسی لیے ناکام ثابت ہورہی ہے۔
مغرب کے جن دو جدید عمرانی نظریات پر علامہ نے شدید تنقید کی وہ سیکولرازم اور نیشنلزم یعنی وطنی قومیت ہیں. ان کے ضمن میں علامہ کے خیالات اتنے واضح و بین ّاور معروف و مشہور ہیں کہ یہاں ان کی جانب صرف ایک اجمالی اشارہ کافی ہے چنانچہ سیکولرازم علامہؒ کے نزدیک اس دور کا سب سے بڑا فتنہ اور دین اور سیاست کی علیحدگی فساد کی اصل جڑ ہے۔ مزید برآں انسانی حاکمیت کا تصور علامہ کے نزدیک کفر اور شرک ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ شخصی اور انفرادی ہو یا قومی اور عوامی اس موضوع پر علامہ کے مشہور اور عام فہم اشعار میں سے تو یہ شعر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
گویا علامہ ؒکے نزدیک یورپ میں ’’احیاء العلوم‘‘ اور ’’اصلاحِ مذہب‘‘ کی تحریکوں کے زیر اثر آدم میں جو ’’خود شناسی‘‘ اور ’’خود نگری‘‘ کا شعور پیدا ہوا‘ وہ اصلاً تو درست تھا لیکن اسے ابلیس اور اس کے کارندوں نے ’’عوامی حاکمیت‘‘ کی صورت دے کر شیطنت کا سب سے بڑا مظہر اور ابلیس کا آلہ کار بنا دیا ہے چنانچہ جو گندگی منوں اور ٹنوں کے حساب سے ماضی میں کسی فرعون اور کسی نمرود یا کسی قیصر اور کسی کسریٰ کے سر پر تاج کی صورت میں رکھی ہوتی تھی وہ آج تولہ تولہ یا ماشہ ماشہ ہر انسان کے سر پر لیپ دی گئی ہے‘ لیکن نجاست بہرحال نجاست ہے‘ خواہ منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہو‘ خواہ تولوں اور ماشوں کی مقدار میں!
علامہ اقبالؒ مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ،لیکن تعلیم،قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔اسی لیے علامہ اقبالؒ نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا۔ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے۔
شاعر مشرق نے اسی باعث مغربی جمہوریت کو برہنہ تلوار (تیغ بے نیامی) قرار دیا۔نیزیہ مثال دے کر اپنے مقدمے کو مضبوط بنایا:
’’دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی ذہن کی برابری نہیں کر سکتے۔‘‘
چونکہ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں محض طرزِ حکومت ہے،اسی لیے پچھلے دو برس میں یہ کئی اشکال اختیار کر چکا۔مثلاً برطانوی جمہوریت جہاں آج بھی بادشاہت کے محدود روپ میں زندہ ہے۔یا امریکی جمہوریت جہاں صدر سب سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔مگر انہی جمہوری یا عوام دوست ممالک کے حکمرانوں نے پچھلے دو سو برس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم بھی ڈھائے اور جنگ و جدل کی انتہا کر دی۔ اسی باعث ’’بال جبرئیل ‘‘میں حیرت زدہ شیطان بھی پکار اٹھتا ہے
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
سو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اخلاقی و مذہبی اصولوں سے عاری مغربی جمہوریت دراصل آمریت ہی کا نیا روپ ہے۔چناں چہ دنیائے مغرب میں امیر حکمران طبقہ عوام کا استحصال کر کے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔بس جمہوریت کے نام پر عوام کو کچھ سہولتیں دے دی جاتی ہیں تاکہ وہ مطیع و فرماں بردار رہ سکے۔
اقبالؒ کا تصور جمہوریت آج بھی قابل عمل ہے۔ انہوں نے دین اور سیاست کی یکجائی کا خواب دیکھا۔جو سیاست اخلاقی احساسات سے عاری ہوکر سراسر مادی مفادات سے عبارت ہو کر رہ جائے وہ لا محالہ چنگیزی بن جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ اسلام معاشرے میں مکمل اور غیر مشروط مساوات کا قائل ہے۔
جمہوری نظام جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور حاکم بھی قانون کے تابع ہو۔ عوام کو مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہو انکے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب رنگ اور نسل، ترقی اور نشوونما کا موقع مل سکے۔ علامہ محمد اقبالؒ کی خدمات برصغیر کے مسلمانوں کو جگانے کیلئے ناقابل فراموش ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے افکار پر عمل پیرا ہو کر ہی پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔ ان کی تعلیمات و افکار میں قوم کیلئے تڑپ موجود ہے۔ان کی سوچ کا ہر پہلو ملت کیلئے اصلاح کا پیغام دیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.