عدم اعتماد: ’’ہر کسی کو کسی سے خطرہ ہے‘‘

28

نواب آف اودھ آصف الدولہ (1798-1725ء) نے ریاست لکھنؤ میں قحط ،مہنگائی اور بے روز گاری کے خاتمے کے لیے ایک محل بنوایا جس کی تعمیر 14 سال میں مکمل ہوئی ۔اس کا مقصد ملک میں ملازمت کے مواقع پیدا کرنا اور بھوکے بے روز گاروں کو کھانا فراہم کرنا تھا یہ تاریخی محل بھول بھلیاں کے نام سے مشہور ہے جس میں 1000 راستے اور 489 موڑ آتے تھے یہ آج بھی سیاحوں کیلئے ایک دلچسپ سیر گاہ ہے اور چیلنج ہے کہ اس میں داخل ہونے والے راستہ بھول جاتے ہیں سیڑھیاں اور گزر گاہیں اس طرح کی ہیں کہ جب آپ یہ سمجھیں کہ آپ اوپر والی منزل کی طرف جارہے ہیں تو آپ نیچے پہنچ جاتے ہیں اور جب آپ نیچے جانے کی کوشش کرتے میں تو راستہ آپ کو بالائی منزل پر لے جاتا ہے یہاں جو بھی جائے گا اپنا راستہ بھول جائے گا۔
اگر بھول بھلیاں کے بارے میںآپ کو ہماری بات سمجھنے میں دقت کا سامنا ہے تو ایک جھلک پی ڈی ایم کے سیاسی اتحاد کو دیکھ لیں آپ خودہی سمجھ جائیں گے اکتوبر 2020 میں قائم ہونے والا یہ کثیر جماعتی اتحاد بھول بھلیاں سے کم نہیں ہے انہیں نہ اس وقت اپنی ڈائریکشن معلوم تھی اور نہ آج ہے۔ زرداری صاحب کا اس وقت مطالبہ یہ تھا کہ اگر حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو عدم اعتماد لائیں لیکن سب سے بڑی پارٹی ن لیگ اس پر تیار نہ تھی۔ آج ڈیرھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی پی ڈی ایم وہیں کھڑی ہے جہاں یہ 2020ء میں تھی جو کام یہ اب کرنے جا رہے ہیں یہ ڈیڑھ سال پہلے بھی ممکن تھا بلکہ اس وقت حکومتی مدت پوری ہونے میں سوا سال کا عرصہ باقی ہے تو پی ڈی ایم منیر نیازی کی طرح اندر ہی اندر یہ سوچ رہی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔تاریخ کا اصول ہے کہ غلط مسئلے کے حل کیلئے جتنی دیر سے اٹھوگے اتنی ہی زیادہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
اب بھی پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک پیج پر نہیں ہیں۔پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد باقی ماندہ مدت پوری کرنے کے لیے راجہ پرویز اشرف اور خورشید شاہ میں سے کوئی ایک ان کا وزیراعظم کا امیدوار ہوگا جبکہ ن لیگ کا مؤقف ہے کہ نئے انتخابات ہونے چاہئیں ن لیگ کے اندر بھی سب ایک پیج پر نہیں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی جو بات کریں سمجھ لیں کہ یہ نواز شریف کا مؤقف ہے نئے انتخابات کی بات انہوں نے کی ہے کیونکہ نواز شریف اب اس حکومت کو مزید ٹائم دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ سوا سال کے لیے ن لیگ کی حکومت قائم کرنے کے حق میں ہیں کیونکہ قومی معاملات اتنے پیچیدہ اور گمبھیر ہیں کہ اگر ن لیگ عدم اعتماد کے بعد
حکومت بنانے کار سک لے گی تو ناکام ہو گی اور عوام کی نظر میں آخری حکمران سب سے زیادہ قابل مذمت ہوتا ہے لہٰذا نواز شریف تحریک انصاف کی بلند و بالا ناکامیوں کو ایک سال کے اقتدار کے لالچ میں اپنے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
آصف زرداری صاحب کسی لیول پر اس طرح کی پیغام رسانی میں مشغول ہیں کہ قومی ادارے اس سیاسی صورتحال میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں بلکہ یہاں تک سننے میں آ رہا ہے کہ نواز شریف نے اپنے برادر خورد شہباز شریف کو بھی آصف زرداری کی طرز پر رابطوں کا کہا ہے تا کہ اس بات کی یقین دہانی حاصل کی جائے کہ انتخابات کی صورت میں ادارے غیر جانبدار رہ کر کام کریں۔
پی ڈی ایم کی کا میابی کیلئے ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی ، ایم کیوایم ، گرینڈ ڈیموکر یٹک الائنس جیسی چھوٹی پارٹیوں کی مدد کی ضرورت ہے اور یہ چھوٹی پارٹیاں کسی بھی وقت کسی کی آنکھ کے اشارے سے اپنا مقام بدل لیتی ہیں بقول جون ایلیا
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
ہر کسی کو کسی سے خطرہ ہے
اس سارے منظرنامے میں اگر کو ئی حالات کو سب سے زیادہ انجوائے کر رہا ہے تووہ ق لیگ ہے حکومت کی حکومت اور اپوزیشن کی اپوزیشن۔ چودھری شجاعت حسین وقفے وقفے سے اپنے اتحادی جماعت کی پالیسیوں سے ق لیگ کو مبریٰ قرار دیتے ہیں جو پیغام ہوتا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ضرور ہیں مگر ہم آپ کے ساتھی نہیں ہیں پنجابی میں اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا‘‘ یعنی عمران خان کو کہا جاتا ہے کہ اپنے اقتدار کی حفاظت خود کریں۔ اس دفعہ بھی انہوں نے یہی کیا جب شہباز شریف 14 سال بعد چودھریوں سے ملاقات کیلئے آئے تو ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں ایک دوسرے کا مؤقف دیا اور لیا گیا۔ چودھری شجاعت سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس حکومت گرانے کا پلان ہے مگر گرائے جانے کے بعد کیا کرنا ہے اس پر ہوم ورک مکمل نہیں ہے اس بات کا اظہار وہ مولانا فضل الرحمن سے بھی کر چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مولانا انہیں قائل نہیں کر سکے۔
اصل بات یہ ہے کہ ق لیگ کی پوزیشن ایسی ہے جیسے ان کے گھر کے آنگن سے پٹرول کا کنواں دریافت ہو جائے وہ دونوں دھڑوں کی مجبوری ہیں مگر وہ سوچتے ہیں کہ اس وقت پنجا ب میں اقتدار پر ان کی گرفت پوری ہے عثمان بزدار ان کا ہر کام کرتے ہیں۔ بزدار صاحب کی سپیشلائزیشن میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ بطور خاص شامل ہے تمام بڑی بڑی پوسٹیں چھ چھ بار بدلی جا چکی ہیں جن میں آئی جی چیف سیکرٹری اور سیکرٹری شامل ہیں جس میں سیاست کی منڈیوں کے بھاؤ پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ق لیگ نے کرتب گری کی حد کردی جب شجاعت حسین کی ملاقات شہباز شریف سے ہوئی اور اگلے دن مونس الٰہی اور عمران خان کے درمیان مذاکرہ براہ راست ٹی وی پر دکھایا گیا جس میں مونس الٰہی نے شہاز شریف کی آمد کے بارے میں عمران خان کو نہ گھبرانے کا مشورہ دیا۔ اس وقت ساری قومی سیاست کی آنکھ کا تارہ ق لیگ ہے جبکہ کیمرے کی خفیہ آنکھ بھی ق لیگ نے جانا خفیہ کیمرے کی طرف ہے وہ جس طرف اشارہ کرے گا ریس کے گھوڑے اسی طرف دوڑ پڑیں گے۔
پاکستان کی سیاست میں چھوٹی پارٹیاں زیادہ فائدے میں رہتی ہیں یہ وہ سمال انڈسٹری یا مائیکرو فنانس پر اجیکٹ ہیں جن کوہر پارٹی گود لے لیتی ہے ان پر اقتدار کی باری کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔یہ اقتدار کے وہ ’’ریلو کٹے‘‘ ہیں جو دونوں اننگز میں دونوں ٹیموں کے ساتھ بیٹنگ کی باری لیتے ہیں۔ ق لیگ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک ن لیگ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ان بڑی پارٹیوں سے کہیں زیادہ عرصہ اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور آگے بھی ان کے کام میں برکت نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم اور حکومت میں کون کامیاب ہو گا اس کا جواب بھی ق لیگ کی جیب میں ہے یعنی کامیاب وہی ہو گا جس کے ساتھ یہ ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں.