یہ کیا ہو رہا ہے؟…

143

آج لکھنا تو کسی اور موضوع پر تھا لیکن تجزیہ نگار اور صحافی محسن بیگ کی گرفتاری کی ویڈیو اور خبر نے مجھے آج کا موضوع بدلنے پر مجبور کیا۔ خبر میں ہے کہ ایک اخبار کے مدیر محسن بیگ کو ایف آئی نے گرفتار کر لیا۔ بعد میں ان کی عدالت میں پیشی کے دوران ان کی تشدد زدہ ویڈیو بھی دیکھی جو کہ بہت افسوسناک ہے۔ تشدد کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ افسوسناک ویڈیو بھی دیکھی جس میں محسن بیگ گرفتاری کے دوران ایف آئی کے اہلکاروں کی موجودگی میں پستول لہرا کر فائرنگ کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر تشدد تو ہمارے ملک میں ایک وتیرہ بن گیا ہے لیکن ایک صحافی کی طرف سے پستول تاننا اور ہوائی فائرنگ کرنا بھی صحافت کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے۔ اس پر بھی جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ لیکن ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے۔ پی ایف یو جے کی درجن بھر تنظیمیں اس گرفتاری کی مذمت کر رہی ہیں ہم بھی کرتے ہیں ایف آئی کا ایکشن قطعاً غلط ہے لیکن ہمیں اپنے رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔
کہا جا رہا ہے کہ آج کل صحافت پر کڑا وقت ہے؟ پہلے تو طے کر لیا جائے کہ صحافی اور صحافت کی تعریف کیا ہے۔ اس کے لیے کوئی زیادہ پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں اور یہ سب جاننے کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے اولین آئین کا مطالعہ ہی کافی ہے۔ گو کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد کیٹیگریز میں اضافہ ہوا لیکن صحافت اور صحافی کی بنیادی تعریف وہی رہی۔ اس آئین کی تیاری میں منہاج برنا، نثار عثمانی، حسین نقی، عبدل مجید چھاپرا، احفاظ الرحمان سمیت دیگر جید صحافیوں کی برسہا برس کی عرق ریزی اور کاوشیں شامل رہی ہیں۔
اس آئین کی بنیادی شرائط کے مطابق صحافی کا روزگار صرف شعبہ صحافت سے ہی منسلک ہو گا، کسی صحافتی ادارے کا مالک نہ ہو گا، آزادی صحافت پر یقین رکھے گا، وہ کسی حکومتی، سیاسی یا مذہبی جماعت، کاروباری یا کسی گروہ کا آلہ کار نہیں بنے گا، کوئی حکومتی عہدہ نہیں لے گا اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی اور اس کی تحریروں میں کسی طرف جھکاؤ یا ذاتی پسند ناپسند کو آڑے نہیں آنے دے گا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح معاشرے کے دیگر شعبوں میں انحطاط آیا اس طرح صحافت بھی نہ بچ سکی اور یہ بھی تنزلی کا شکار ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافی ایوب خان سے لے کر آج تک کسی نہ کسی طرح حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ ن کو ہی یہ کریڈٹ جاتا ہے جس نے صحافیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے گود لیا یا آسان لفظوں میں انہیں سینیٹر بنوایا، نگران وزیراعلیٰ بنوایا، حکومتی اداروں کا سربراہ بنایا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن کچھ صحافیوں نے صحافت میں رہتے ہوئے بھی اپنے سیاسی آقاؤں کی چاکری جاری رکھی۔ اس میں صحافت کی ایک نئی طرز اپنانے والے یو ٹیوبرز نے تو حد کر دی اور تخیلاتی خبریں تشکیل دی جانے لگیں۔ صحافت کو گھن لگوانے میں ان خبریں پڑھنے والے پیراشوٹر اینکرز کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جو بغیر کسی صحافیانہ تربیت، تجربے اور تحقیق کے کیمرہ اور مائیک پر محض ریٹنگ کے لیے جو چاہے اُگل رہے ہیں۔ محسن بیگ کا واقعہ بھی ایک ایسے ہی شو سے جوڑا جا رہا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہتک عزت کا قانون اتنا طاقتور نہیں کہ ایسے واقعات کا سد باب ہو سکے۔ وفاقی حکومت نے اس حوالے سے ایک قانون بنانے کی کوشش کی لیکن دباؤ کے باعث ایسا نہ کر سکی۔ لیکن تمام سٹیک ہولڈرز سے مل کر ایسا قانون بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایک دوست نے اس طرف توجہ دلائی اور لکھتے ہیں کہ چند برس قبل برطانوی پارلیمنٹ کے سپیکر کی اہلیہ سیلی برکو نے ایک ذومعنی ٹوئٹ کی۔ برطانوی ایوان بالا کے ایک رکن پر جنسی نوعیت کے الزام لگائے جا رہے تھے، سیلی نے ٹوئٹر پر صرف یہ لکھا کہ لارڈ صاحب کا نام کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس پر برطانوی ہائیکورٹ میں ان پر ہتک عزت کا مقدمہ چلا اور بھاری جرمانہ، ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کرنا پڑا، BBC اور کچھ دیگر شخصیات کے خلاف بھی کیس ہوئے، بھاری جرمانے ادا کرنا پڑے، ٹوئٹر پر ری ٹوئٹ کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ملوث لوگوں نے معافی مانگی شرمندگی کا اظہار کیا۔ اس خبر میں تمام تفصیلات موجود ہیں۔
گزشتہ روز ایک وفاقی وزیر کے حوالے ایک چینل پر انتہائی نامناسب گفتگو ہوئی۔ ذومعنی جملے بولے گئے، بنیادی طور پر جنسی نوعیت کے الزامات لگائے گئے، ٹوئٹر پر ٹوئٹس کی گئیں، ری ٹوئٹس ہوئیں، اس پر چند لوگوں نے تنقید کی، کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ ایسی غیر شائستہ گفتگو ٹی وی پر کی گئی لیکن کوئی ردعمل نہیں آیا، الٹا ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے نامناسب رویے کا دفاع کیا گیا۔
اب جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایسی باتوں پر outrage نظر آئے گی، مذمت ہو گی ردعمل نظر آئے گا، ان کو یقیناً مایوسی ہو گی۔ ایسے ہی ذومعنی جملے اور غیر شائستہ گفتگو پی پی پی کے ایک رہنما پارلیمنٹ میں کئی بار کر چکے ہیں، کچھ عرصہ قبل پارلیمنٹ کے اندر ایک ایم این اے صاحب کو دشنام طرازی کرتے سنا گیا، جیسے ہی ان کی ویڈیو وائرل ہوئی اگلے ہی روز وہ ہر دوسرے چینل پر نظر آنا شروع ہو گئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ایسی زبان اور رویوں کے حوالے سے ہمارے کیا رویے ہیں۔
محسن بیگ کا کیس دیکھا جائے تو عمومی طور پر اس قسم کی گرفتاریاں علی الصبح گھر کی چادر اور چاردیواری پھاند کر ہوتی ہیں۔ نجم سیٹھی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور خود میرے ساتھ بھی شہباز شریف کے کہنے پر ایک جعلی مقدمے میں ایسا ہی ہوا۔ گو کہ پولیس کے اس چھاپے کی بروقت اطلاع پر میں اہل خانہ کے ساتھ نکل گیا۔ لیکن پولیس نے اپنے فرض کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اذان فجر سے قبل میرے گھر سیڑھیاں لگا کر داخل ہوئی، دروازے توڑے وغیرہ وغیرہ۔ میرے ساتھ اس ایف آئی آر میں بحکم شہباز شریف دی نیوز کے علی رضا اور ضیا اللہ نیازی بھی شامل تھے۔ حکمرانوں نے جس بے دردی سے ہمارے مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ کو استعمال کیا یہی محسن بیگ کے ساتھ بھی ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف کو ہمارا انداز تحریر پسند نہ تھا۔ خیر مشرف کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد میاں نواز شریف کے سسر کی وفات پر جب انہیں پیرول پر لایا گیا تو شہباز شریف نے اس واقعہ کی معذرت کی۔ بعد ازاں اس مقدمے کے مدعی سب انسپکٹر نے عدالت میں کہہ دیا کہ یہ ایف آئی آر سیاسی دباؤ پر درج کی گئی تھی اور ہماری جان چھوٹ گئی۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی، ادارے اور حکومت کوئی بھی گرے لائن عبور نہ کرے اور ہر کوئی اپنی حدود میں رہ کر کھیلے۔ یہ سب صرف خود احتسابی کے ذریعے ممکن ہے جس کے لیے شاید ہم تیار نہیں۔
قارئین اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.