تحریک عدم اعتماد ’’ڈرامہ‘‘ کی نئی قسط!

34

آج کل وطن عزیز میں ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کا زور وشورجاری ہے، اس کیلئے اپوزیشن پارٹیاں روزانہ کی بنیاد پرناصرف سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں بلکہ آپس کی پرانی ’’رنجشیں‘‘ بھی دور کی جار ہی ہیں۔ جیسے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا دوبارہ مل بیٹھنا، پیپلزپارٹی کا ایم کیو ایم سے گلے شکوے دور کرنا، مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کا ایک نکتے پر اتفاق کر جانا، اور پھر سب سے بڑی خبر کہ 14سال بعد ن لیگ کا چوہدری شجاعت یعنی ق لیگ سے گلے جا لگنا۔ یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ہو رہا ہے اور پاکستان میں یہ ڈرامہ ہر دور میں پلے ہوتا آیا ہے۔بلکہ اس کی نئی قسط آج کے دور میں چل رہی ہے جس میں بھی شاید اپوزیشن کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ آگے چلنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہے کیا اور اسے کب کب استعمال کیا گیا۔ درحقیقت سرکاری طور پر ’’تحریک عدم اعتماد ‘‘یا ’’عدم اعتماد بل‘‘ اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کیخلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلا قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر
ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تحریک عدم اعتماد یعنی Vote of No Confidence گزشتہ تین دہائیوں میں دو دفعہ اس آئینی ہتھیار کو آزمایا گیا۔ پہلی تحریک تو محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تھی۔ وہ اس وقت مرکز میں وزیراعظم تھیں اور میاں نوازشریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مدارا لمہام تھے۔ ان دونوں میں مخاصمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادارا نہ تھے۔ میاں صاحب نے محترمہ کو عدم اعتماد کی صورت میں للکارا۔مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کیلئے حکومتی پارٹی کے ارکان کو توڑا گیا۔ پیسے میں کس قدر طاقت ہے اس کا اندازہ ان دنوں ہوا۔ متبادل کے طورپر غلام مصطفی جتوئی کا نام تجویز ہوا۔ جب مطلوبہ تعداد پوری ہوگئی تو ممبران کو ایک بار نہیں بار بار گنا گیا۔ اسکے بعد اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی گئی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی بولیاں لگنے لگیں، خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک ناکام ہوگئی، اور محترمہ بال بال بچ گئیں۔
جبکہ دوسری تحریک عدم اعتماد قومی نہیں بلکہ صوبائی تھی، یہ تحریک وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تھی۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔ میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت فوری طور پر میسر آگئی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے۔
اب تیسری مرتبہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیرا عظم عمران خان کے خلاف ایک بار تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، اْس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان جبکہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔کیوں کہ بے نظیر کے پہلے دور حکومت سے عمران خان کہیں زیادہ مضبوط ہیں کیونکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی مضبوط حکومتیں قائم ہیں۔اور پھر جب تک حکومت کے 20 سے 30 لوگ ٹوٹ کر اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتے تو یہ تحریک محض وقت کا ضیاع ثابت ہوگی۔جبکہ اتنی تعداد میں ممبران کو توڑنا اپوزیشن کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ سابقہ ریکارڈز کے مطابق موجودہ اپوزیشن تاریخ کی سب سے آسان اپوزیشن ثابت ہوئی ہے، کیوں کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا ہو۔ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہو، فنانس بل ہو یا سٹیٹ بینک ترمیمی بل ہو، ہر موقع پر اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے۔ لہٰذااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دفعہ ایسا کیا ہوگا جو نیا کہلائے گا، جس سے حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ بقول شاعر
چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ
لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ
خیر پی ٹی آئی اس تھوڑے سے مشکل وقت سے نکلنے میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام ،اس کا فیصلہ وقت کرے گا مگر سوال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں احتجاج کس کے خلاف کر رہی ہیں؟ اس سسٹم کے خلاف جو ان جماعتوں نے خود ہی ترتیب دیا ہے، یا اس حکومت کے خلاف جو گزشتہ کئی دہائیوں کا گند صاف کر رہی ہے،یا نیب کے خلاف جس کا چیئرمین انہوں نے خود لگایا ہے۔ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پیچھے مہنگائی رہ جاتی ہے، اْس کے لیے حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دینے چاہیے، جس کے بعد عوام خود فیصلہ کرلیں گے کہ اْسے کس کو منتخب کرنا ہے۔ ورنہ اس ڈرامے کو بند ہونا چاہیے، اس سے میرے خیال میں صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے، ہمیں مل کر عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیے، حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کے مسائل کی دلدل سے نکالیں، عوام کی تعلیم کا خیال کریں، اْنہیں ایجوکیٹ کریں تاکہ عوام ہجوم بننے کے بجائے ایک قوم بن جائیں۔ اسی میں ہم سب کی عافیت ہے ورنہ ہم ذاتی مفادات کے لیے یونہی لڑتے رہیں گے جیسے اپوزیشن لڑ رہی ہے اور پھر آخر میں کچھ حاصل نہ ہوگا!

تبصرے بند ہیں.