شیر میسور، ٹیپو سلطان کی بیٹی

46

’’شیر کی ایک دن کی زندگی
گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہترہے‘‘
ہمیشہ زندہ رہنے والے یہ الفاظ ٹیپو سلطان شہید کے ہیں۔ وہ ٹیپو جو شیر میسور کے نام سے جانا جاتا تھا۔میسور اس کرناٹک کا پرانا نام تھا جس پر ٹیپو سلطان کی حکمرانی تھی۔ سر نگا پٹم کے قلعے میں محصور ہو جانے کے باوجود ٹیپو سلطان نے، مشیروں کے مشوروں پر چپکے سے نکل جانے اور پسپائی اختیار کرنے کا راستہ نہ چنا۔ اس نے کہا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘ ۔ اس نے اپنا قول سچ کر دکھایا۔ گیدڑ کی طرح جینے پر اس نے شیر کی طرح جان دینے کو ترجیح دی۔ شہادت کو گلے لگا لیا لیکن گردن نہ جھکائی۔ اس نے ساری دنیا کو یہ سبق دیا کہ زندگی بہادری اور دلیری سے گزرنی چاہیے۔ غلامی کی زندگی سے موت ہزار درجے بہتر ہے۔
پچھلے چند دنوں سے، بہادری اور دلیری کی علامت کے طور پر ابھرنے اور دنیا کے میڈیا پر چھا جانے والی مسکان خان کا تعلق ٹیپو سلطان کے اسی میسور سے ہے، جو آج مودی جیسے درندے اور اس کے کارندوں کا کرناٹک ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ ملالہ کے بعد عالمی شہرت پانے والی دوسری مسلمان لڑکی ہے۔ غنڈوں نے، تعصب کی علامت زعفرانی چادریں کندھوں پہ ڈالتے، جس طرح مسکان خان کا گھیراو ٔکیا، جس طرح اس کے خلاف نعرے لگائے اور جس طرح اسے ہراساں کیا، وہ سب کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا ہے۔ اب تک کروڑوں لوگ اس منظر کو دیکھ چکے ہیں۔ اپنے سینے میں دل رکھنے والا شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جس نے متعصب گروہ کے اس رویے کی مذمت اور بہادر نہتی مسکان کی جرأت کی تعریف نہ کی ہو۔ مسکان پوری دلیری کے ساتھ نہ صرف آگے بڑھ رہی تھی بلکہ ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘کے نعرے بھی بلند کر رہی تھی۔ انیس سالہ مسکان، بی کام سیکنڈائیر کی طالبہ ہے جو ایک سرکاری کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ بھارت کی جنوبی ریاست کر ناٹک پر مودی کی متعصب بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)کی حکومت ہے جس نے بھارتی سیکولرازم کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسکان خان پورے حجاب کے ساتھ سکوٹی پر سوار کالج آتی ، سکوٹی پارک کرتی اور کالج میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے لیکن راشٹریہ سیونگ سنگھ(RSS) کے نوجوان لڑکوں کا ہجوم اسے گھیرے میں لے لیتا اور جے شری رام کے نعرے لگانے لگتا ہے۔ اس وقت کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے مسکان خان نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا  "مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، میں ہمیشہ کی طرح کالج جا رہی تھی۔ باہر سے آنے والے کچھ لوگ گروپ کی شکل میں کھڑے ہو گئے اور مجھ سے کہا کہ تم برقع پہن کر کالج کے اندر نہیں جاؤ گی۔ اگر تم کالج جانا چاہتی ہو تو تمہیں برقع اور حجاب اتار کر اندر جانا ہو گا۔ اگر تم برقعے میں رہنا چاہتی ہو تو گھر واپس چلی جاؤ۔ مگر میں اندر آگئی۔ ابتداء میں، میں نے سوچا کہ میں خاموشی سے چلی جاؤں۔ لیکن وہاں بہت سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ ’’برقعہ ہٹاو‘‘ اور ’’جے شری رام‘‘ جیسے نعرے لگ رہے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ میں کلاس میں جاؤں گی لیکن وہ تمام لڑکے میرے پیچھے ایسے آ رہے تھے جیسے وہ سب مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ یہ 30 سے 40 افراد تھے۔ میں اکیلی تھی۔ان میں انسانیت نہیں ہے۔ اچانک وہ میرے پاس آگئے اور چلانا شروع کر دیا۔ کچھ نے نارنجی رنگ کے سکارف پکڑے ہوئے تھے اور میرے منہ کے سامنے آکر لہرانے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’جے شری رام، چلی جاؤ۔ برقعہ ہٹاؤ‘‘۔ وہ لوگ مجھے کیمپس میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے۔ بس کہہ رہے تھے۔ بر قعہ اتارو۔ ورنہ کالج نہیں جا سکتی۔ وہ سب مجھے ڈرا رہے تھے۔ میرے سامنے چار لڑکیاں آئیں۔ گیٹ بند تھا۔ پھر کسی طرح پرنسپل صاحب آئے اور اساتذہ بھی، جو مجھے بحفاظت اندر لے گئے۔۔۔جب میں گھیرے میں آ گئی تو میں نے سوچا کہ میں مقابلہ کروں گی۔ میں روئی بھی نہیں۔ جب میں ذرا ڈر گئی تو میں نے ’’اللہ اکبر‘‘کا نعرہ بلند کیا۔ مجھے جب بھی ڈر لگتا ہے، میں اللہ کا نام لیتی ہوں۔ جب اللہ کا نام لیتی ہوں تو مجھ میں ہمت پیدا ہوتی ہے‘‘۔
مسکان خان کی یہ داستان برسوں تک زندہ رہے گی۔ یہ بھاری ذہنیت کی غلاظت کی کہانی ہے جو برصغیر کی تقسیم کے 75 سال بعد بھی مسلمانوں کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق تقسیم سے لے کر اب تک بھارت کے مختلف علاقوں میں دس ہزار سے زائد فسادات ہو چکے ہیں۔ ان تمام فسادات کا محرک متعصب بھارتی گروہ تھے۔ ان فسادات میں کتنے مسلمان شہید ہو گئے ۔کتنوں کے گھر جلا دئیے گئے۔ کتنوں کے کاروبار لوٹ لئے گئے۔ کسی کے پاس اعداد و شمار نہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کم و بیش انڈونیشیا اور پاکستان کے برابر ہے۔ بیس بائیس کروڑ کی آبادی، کسی ایک ملک میں سب سے بڑی اقلیت کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں دنیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی حقوق بری طرح پامال کئے جا رہے ہیں۔ کہنے کو بھارت نے سیکولرازم کا جامہ پہن رکھا ہے لیکن عملًا وہ درندگی کی حد تک متعصب ہے۔ نریندر مودی نے اس متعصبانہ بھارتی سوچ کو پورے معاشرے میں زہر کی طرح پھیلا دیا ہے۔ بھار ت کی نوجوان نسل، مودی کی اس زہریلی سوچ کا شکار ہو کر مسلمانوں کے وجود کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کیساتھ روا رکھا جانے والا ظلم وستم اب پورے بھارت میں پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔ دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا نے اس بھارتی رویے کی طرف سے اپنی آنکھیں اور اپنے کان بند کر رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو بھی موثر اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا کہ بھارتی آئین کے مطابق مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
مسکان خان نے بھارت کی خواتین ہی کو نہیں مردوں کو بھی مردانگی کا درس دیا ہے۔ اس نے بھارت ہی نہیں، دنیا بھر کے کمزوروں اور مظلوموںکو درس دیا ہے کہ اپنے حق کے لئے کس طرح ڈٹ جانا چاہیے۔مسکان نے پاکستانی خواتین کو بھی یہ درس دیا ہے کہ مردوں کی بالا دستی والے معاشرے میں کس جرأت اوربہاد ری کے ساتھ اپنے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں بھی ایسی ’’مسکانوں‘‘کی کمی نہیں جو اخلاق سے عاری اوباشوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایسا مذہبی بنیاد پر نہیں ہو رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کو سوا دو صدیاں ہو نے کو ہیں۔ شیر میسور کی روح کو یقینا تسکین پہنچی ہو گی کہ اس کی ایک بیٹی نے بے حیا اوباشوں کے نرغے میں ’’اللہ اکبر ، اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگا کر ثابت کیا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

تبصرے بند ہیں.