لانگ مارچ کا اعلان تحریک عدم اعتماد کے لیے بھاگ دوڑ اور اب ان ہائوس تبدیلی پر فوکس، اپوزیشن تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل پیرا ہے حکومت نے ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے چار سال بیت گئے ہر پیشی پر گلاب کی پتیوں سے ڈھکی گاڑی میں عدالت میں حاضری اور پھر اگلی تاریخ ضمانت میں توسیع نیب کے علاوہ ایف آئی اے نے بھی حاضری لگانی شروع کردی۔ اپوزیشن لیڈر اس خوف و ہراس کی فضا میں بھی حکومت گرانے کے لیے متحرک۔ حکومت گرانا کون سا بڑا مسئلہ ہے۔ اتحادی الگ ہو جائیں حکومت گر جائے گی۔ مگر کیوں الگ ہوں، ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا تو اپنا کوئی متفقہ ایجنڈا نہیں۔ نام خدا گیارہ جماعتیں اللہ اللہ کر کے اکٹھی ہوئیں۔ استعفوں کے نام پر ایک علیحدہ ہوگئی۔ باقی نو یا دس میں ایک دو کے سوا کوئی اسٹیک ہولڈر نہیں۔ ایک موسم بیت گیا تو باسی کڑھی میں پھر ابال آگیا۔ استعفوں کا معاملہ موخر۔ سب اس خوف میں مبتلا کہ استعفے دے دیے تو ان کے پلے کیا بچے گا۔ مقدمات میں تیزی آئے گی۔ سزائیں سنائی جائیں گی حکومت ضمنی انتخابات کرا دے گی اس خوف کا سر عام اظہار بھی کیا گیا چنانچہ نئے سیزن میں ایک طرف تحریک عدم اعتماد جبکہ دوسری طرف ان ہائوس تبدیلی کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔ حالات موافق ہوں تو دونوں تجاویز خطرناک۔ پیپلز پارٹی کی عدم اعتماد کی تحریک کا مقصد حکومت کا دھڑن تختہ۔ مفاہمت کا شائبہ تک نہیں، اسی لیے کہا گیا کہ بلاول بھٹو نے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ ابا جی مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے ہیں انہوں نے مفاہمت کے دوسرے بادشاہ شہباز شریف سے ملاقات کی۔ روٹی ٹکر کھایا دل کی بھڑاس نکالی۔ میڈیا سے لمبی چوڑی بات چیت کی اور شانت ہوگئے۔ طے کیاپایا؟ کچھ بھی نہیں ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اور قائد نواز شریف سے پوچھ کر بتائیں گے، کمیٹی اجلاس ہوا قائد سے پوچھا انہوں نے کہا تمام جماعتوں سے رابطے کرو۔ پی ڈی ایم کا اجلاس بلائو کچھ بھی کرو حکومت گرنی چاہیے اور بس۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ن لیگ کے قائد نے شہباز شریف کو تحریک عدم اعتماد لانے کی کلی اجازت دے دی ہے۔ہوم ورک مکمل ہے۔ پلان اے اور پلان بی تیار کرلیا گیا ہے اورامکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تحریک فروری ہی میں یعنی اسی ماہ پیش کردی جائے گی۔ ایم کیو ایم اور چودھری برادران بھی میدان میں کود پڑے کہتے ہیں حکومت کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں ق لیگ کو من پسند وزارت اور فنڈز نہ ملنے کا شکوہ ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کو سوائے امین الحق کی وزارت کے کچھ بھی نہ ملنے کا قلق ہے لیکن اتحادی رہنے میں جو مزہ بلکہ مزے ہیں وہ اپوزیشن میں کہاں۔ اپوزیشن بھی متحد نہیں ٹوٹی پھوٹی بلکہ ٹوٹی فروٹی جس کا کوئی ایک نکاتی ایجنڈا نہیں ایسی اپوزیشن سے امید وفا؟ ناں بابا ناں۔ چنانچہ متحدہ اور ق لیگ نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر اتفاق کیا۔ شہباز شریف نے لاکھ سمجھایا کہ وقت کم ہے۔ ٹرین میں سوار ہوجائو۔ گارڈ کی سیٹی کا انتظار فضول ہے۔ لیکن ایم کیو ایم والے اس عمل میں ’’ماہر‘‘ جواب دیا۔ اپوزیشن کا ایجنڈا واضح ہونے تک مہلت دیں۔ چوہدری برادران سے بھی ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں چوہدری پرویز الٰہی سے پوچھا گیا تحریک عدم اعتماد پر بات ہوئی؟ جواب آیا کوئی بات نہیں ہوئی ہم نے ملکی سیاسی
صورتحال پر بات چیت کی حکومت کے اتحادی ہیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔ دودھ میں ابال آیا تو ’’گیس بند ‘‘ٹائیں ٹائیں فش، لوگوں نے کہا پیپلز پارٹی کا مزاحمتی بیانیہ سامنے آیا تو ن لیگ ان ہائوس تبدیلی کا مفاہمتی بیانیہ مارکیٹ میں لے آئی۔ کون سے بیانیے پر آگے بڑھا جائے۔ مولانا فضل الرحمان کیا بتائیں گے۔ ان کی باتیں اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو روز اول سے سمجھ نہیں آرہیں۔ پہلے سیزن میں انہوں نے استعفوں کا آپشن دیا تھا۔ استعفے دے دیے جاتے تو شاید کچھ ہوجاتا۔ اتنے استعفون پر ضمنی الیکشن ممکن نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی نے تجویز ہی نہ صرف مسترد کی بلکہ اپنے ساتھ اے این پی کو بھی لے گئی۔ پی ڈی ایم کا حشر نشر ہوگیا۔ اب کیا ہونا ہے لیکن سیاستدانوں کا سیاستدانوں سے میل جول خالی از علت بھی نہیں۔ چکر کیا ہے؟’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ اس مرحلہ پر تحریک چلانے کی کیا ضرورت پڑی؟ اتنی جلدی کیوں؟ کوئی اشارہ ،کوئی سہارا ،کوئی استعارہ، بلدیاتی انتخابات یا عام انتخابات کے لیے مہم ،کوئی بات واضح نہیں ۔ تجزیہ کار اپنے اپنے تجربہ کے مطابق ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ حکومت نے بھی عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کردیا جلسوں کا شیڈول تیار، یقین کامل جو لوگ مہنگائی سے متاثر نہیں یا جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں ،جسم فربہی کی جانب گامزن ہیں جنہیںہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے وہ جلسوں میں جوق در جوق آئیںگے۔ تیس چالیس ہزار بھی آگئے تو خوش نظروں کو ستر اسی ہزار نظر آئیںگے، یہ سب کچھ اپوزیشن کے کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کو 2018ء سے قبل والی مقبولیت مل سکے گی؟ غیر جانبدار تجزیہ کار بھی اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات حکومت کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے گزشتہ چار سالوں میں مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر ہوگئی۔ وزرا اور مشیروں کا کہنا کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے صرف عذر لنگ ہے دیگر ممالک میں حکومتوں نے اس بات کو اہمیت دی ہے کہ لوگوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں چنانچہ وہاں بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اتنی ہاہا کار نہیںمچی۔ پاکستان میں پیٹرول کی اندھا دھند بڑھتی قیمتوں نے پورے نظام معیشت کو متاثر اور عوام کو پریشان کیا ہے ۔ درآمدات عام غریب آدمی کے استعمال کی چیز نہیں لیکن جب آلو ٹماٹر اور دیگرمقامی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کو آگ لگ جائے مقامی طور پر تیار ہونے والی دوائیں 5 سو گنا مہنگی ہوجائیں گیس پانی کے بلوں میں تین گنا اضافہ کردیا جائے اور حکومت اس طوفان کو مافیاز کی کارروائی قرار دے کر ریت میں منہ چھپالے تو عوام کیا کریں گے مافیاز کو کنٹرول کرنا عوام کا نہیں حکومت کا کام ہے۔ عوام اپنے طور پر کنٹرول کرنے لگے تو ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ دیانت دارانہ رائے ہے کہ حکومت مافیاز اور چینی گندم، دوائوں، اور پیٹرول میں اربوں روپے کی کرپشن کی روک تھام میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس کرپشن میں ’’اپنوں‘‘ کے نام عوام میں مایوسی پھیلانے کا باعث بنے ہیں۔ وزیر اعظم کا ارشاد سر آنکھوں پر کہ لوگوں کی آمدنی بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ناقابل یقین گزشتہ چار سالوں میں صرف مہنگائی بڑھی ہے۔ آمدن میں اضافہ نہیں ہوا۔ حکومت گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام رہی۔ معاشی نمو میں اضافہ کا سبب اربوں کھربوں کے قرضے ٹھہرے ڈالر کو پر لگے ہوئے ہیں۔ چار پیسے کم ہوتا ہے تو دوسرے دن 2 روپے بڑھ جاتا ہے۔ خلق خدا پریشان ’’فرشتے‘‘ حیران ،حیرانی اور ملکی حالات سے حدر درجہ پریشانی میں کیا کریں گے۔ مانیٹرنگ ہو رہی ہے کوئی لاڈلہ نہیں ملک سے پیار ہے ملک ہے تو ہم ہیں۔ حالات کا قریب سے تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ 2023ء انتخابات اور حکومت کی کارکردگی کے حساب کا سال ہے۔ سال کے آغاز پر کوئی فارمولہ بنایا جائے گا۔ جس کے بعد سارے اپنے اور الیکٹیبلز ہوائوں کا رخ متعین کریں گے یاشائدان کے قبلے کا رخ متعین کیا جائے گا، موسمی پرندے ہجرت کر رہے ہوں گے۔ اپوزیشن اور اتحادیوں کی تیز رفتار ملاقاتیں بھی شاید اسی فارمولے کی تیاری کے سلسلہ میں ہو رہی ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.