ہنسیں یاروئیں،سمجھ نہیں آرہی کہ یہ شرم وحیااورعقل کے قریب سے نہیں گزرے یاعقل نے ان کو قریب آنے نہیں دیا۔شرم وحیابھی آخرکوئی چیزہے،باشرم اورباحیالوگ تومیت کے سرہانے اس طرح نہ کبھی ڈھول بجاتے ہیں اورنہ ہی لڈوبانٹتے ہیں۔گھرکوآگ لگی گھرکے چراغ سے۔ان ہی کے کارناموں یاسیاکاریوں کی وجہ سے تو ساڑھے تین سال سے ملک میں سوگ کاعالم اورگھرگھرماتم ہے۔مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے ہرشخص اورہرفردزندہ لاش بن کرکھڑاہے ۔بجائے ان زندہ لاشوں پرآنسوبہانے اوران کے سامنے شرم سے پانی پانی ہوکرکچھ غیرت کھانے کے انہوں نے آپس میں تعریفی سرٹیفکیٹ بانٹنے اورتقسیم کرنے شروع کردیئے ہیں۔شرم وحیاسے عاری ان نمونوں کوکوئی یہ بتائے توسہی کہ جناب والاتباہی اوربربادی پرماتم کیاجاتاہے،گریبان میں جھانکاجاتاہے سرٹیفکیٹ تقسیم نہیں کئے جاتے۔ تاریخی تبدیلی کے ساتھ یہ بھی دنیانے پہلی باردیکھاکہ ملک وقوم کابیڑہ غرق کرنے پربھی سرٹیفکیٹ اورایوارڈتقسیم کئے جاتے ہیں۔واہ جی واہ۔کیاباکمال لوگ اورلاجواب سروس ہے ان کی۔اچھاکریں یابرا،جرم کریں یاکوئی گناہ،بس صلہ اوربدلہ صرف ثواب ہی ثواب ہے۔سرٹیفکیٹ اورایوارڈلینے والوں سے توکوئی گلہ نہیں ۔مالشی،پالشی،بھگوڑوں اورپھگوڑوں والوں کاتوکام ہی شاباش لیناہوتاہے۔وہ مالش اورپالش کاجاں جوکھوں والاکام ہی تو صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں کوئی تھپکی،کوئی لفافہ یاکوئی ہار ملے۔ حیرت تواس سرٹیفکیٹ اورایوارڈتقسیم کرنے والے پرہے جنہیں اس ملک میں ساڑھے تین سال سے نوازاورزرداری چورکے علاوہ اب تک کچھ نظرہی نہیں آرہاتھا۔نوازشریف کوچورکہنے سے آج بھی جس کی صبح ہوتی ہے اورزرداری کوڈاکوکہنے سے جس کی شام ۔اس صاحب کوسرٹیفکیٹ وایوارڈدینے سے پہلے کم ازکم یہ تودیکھنااورسوچناچاہئیے تھاکہ وہ آخرکس خوشی میں یہ سرٹیفکیٹ بانٹ وتقسیم کر رہے ہیں۔ساڑھے تین سالوں میں ایساکوئی شعبہ کیا۔؟ملک کاکوئی ذرہ بھی ایسانہیںبچاجوتباہی کے دھانے پر نہ پہنچاہو۔ملک میںمعیشت توبہت پہلے اللہ کوپیاری ہوچکی ہے۔روزگارنام کی کوئی شئے ملک میں ہے نہیں۔مہنگائی کااژدھاہے کہ جورکنے اورہاتھ میں آنے کانام ہی نہیں لے رہا۔ملک میں بڑاکوئی نیا پراجیکٹ شروع ہی نہیں ہوا۔پچھلے تین سال سے وہی نوازاورزرداری دورکے منصوبوں پرسنگ مرمرکی نئی نئی تختیاں لگاکرگلے میں ہارڈالے اورپہنے جارہے ہیں۔ریل ہے یا بس، بجلی ہے یا پانی، اینٹ، سیمنٹ اورپتھرہے یامٹی کاکوئی تکڑا۔ ہرطرف خسارے ہی خسارے کی باتیں اور شاتیں ہیں۔ لیکن پھر بھی اچھل اچھل کر ایسے سرٹیفکیٹ تقسیم کئے جارہے ہیں کہ جیسے ان تین ساڑھے تین سالوں میں کشمیرفتح کرلیاگیاہو۔ مٹھونے امتحان میں زیرومارکس لئے توباپ نے پوچھا مٹھوامتحان میں کیاہوا۔مٹھونے ڈرتے ڈرتے دھیمی آواز میں بولا۔ پاپا میرے زیرومارکس آئے ہیں۔ باپ نے جیب سے سوکانوٹ نکالا اور مٹھو کے سرپرہاتھ پھیرکریہ کہتے ہوئے وہ نوٹ اسے دیاکہ مٹھویہ زیرومارکس لینابھی ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ملک وقوم کابیڑاغرق کرکے22کروڑعوام کوروٹی کے ایک ایک نوالے کامحتاج بناناواقعی یہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے دس ایماندار اور شانداروزیروں کوسرٹیفکیٹ دیتے ہوئے مٹھوکے باپ کی طرح ان کے سروں پرہاتھ پھیرتے ہوئے یہ کہاہوگاکہ میرے ایماندار وزیر و ساڑھے تین سال میں ملک کے ساتھ جو کھلواڑ تم نے کھیلی ہے یہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ورنہ اس کے علاوہ توان وزیروں کوسرٹیفکیٹ دینے کی اور کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی۔ باہر جن کوجوتے اورگالیاں پڑ رہی ہوں ایسے لوگوں اور وزیروں کو پھر سرٹیفکیٹ و ایوارڈ نہیں دیئے جاتے بلکہ ان کوسسٹم سے ہی باہروالگ کرکے دوسروں کے لئے مثال بنا دیا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہی یہ ہے کہ یہاں جوسبق یادنہیں کرتا اسے ہی چھٹی مل جاتی ہے۔جن وزیروں کوبادشاہ سلامت کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ وتعریفی اسنادملی ہیں آپ ان کوصرف چندلمحوں کے لئے عوام کے سامنے کھڑا کردیں پھردیکھیں ان کی کارکردگی کا حال۔ انہیں اگرلوگوں نے گدھوں پرنہ بٹھایا تو پھر کہنا۔ وزیراعظم عمران خان کو شائدبھولنے کی عادت ہو لیکن یہاں کے عوام ذرہ ذرہ بھی یاد رکھتے ہیں۔ کون کتنے پانی میں ہے۔ یہ بھی ان عوام سے بہتر اور کون جانیں۔؟ کیا آپ کو خیبرپختونخوا میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج یادنہیں۔؟ان کی کارکردگی اگراتنی اعلیٰ اور بالا ہے تو پھر خیبرپختونخوا میں ان کولوگوں نے آنکھیں کیوں دکھائیں۔؟یہ اگراس طرح کے سرٹیفکیٹس کے قابل ہیں توپھران کے سیاسی بھائیوں کولوگوں نے ووٹ کی پرچی کے ذریعے مستردکیوں کیا۔؟کپتان تواپنی کارکردگی ،حکمرانی اورسربراہی کوبھی تاریخی قرار دیتے ہوں گے لیکن وزیراعظم ہائوس اوربنی گالاکے تاج محل سے باہرنکل کرخیموں اورجھونپڑیوں میں آہیں وسسکیاں بھرنے والوں سے ذرہ پوچھ کے دیکھیں توسہی کہ ان کی کارکردگی، حکمرانی اورسربراہی کیسی رہی ہے۔؟لوگوں نے دن میں ان کوتارے نہ دکھائے توپھریہ ایک نہیں لاکھ بار سرٹیفکیٹس سرٹیفکیٹس کایہ کھیل کھیلیں۔ان لوگوں نے صدر ایوب، نوازشریف اورزرداری کومعاف نہیں کیایہ کپتان اوران کے یہ کھلاڑی پھرکس باغ اورکھیت کی مولی ہیں۔دل کوخوش رکھنے کے لئے ویسے یہ سرٹیفکیٹس والا خیال اچھا بہت اچھا ہے۔ جب تک ملک کی باگ ڈور، حکومت اورطاقت پاس ہے کپتان اورکپتان کے کھلاڑی بندکمروں میں سرٹیفکیٹس سرٹیفکیٹس کایہ کھیل کھیلتے رہیں ۔اس کھیل سے کم ازکم ٹائم اوروقت تواچھاگزرے گا۔ لیکن کپتان اورکپتان کے یہ ایماندارکھلاڑی ایک بات یادرکھیں کہ ان سرٹیفکیٹس کے علاوہ بھی انہیں ایک سرٹیفکیٹ لینی ہے اور معذرت کے ساتھ وہ سرٹیفکیٹ کسی وزیراعظم،کسی صدریاکسی بادشاہ سے نہیں بلکہ عوام صرف عوام سے انہوں نے وصول کرنی ہے۔ اصل سرٹیفکیٹ بھی وہی ہے۔ صدر اور وزیراعظم کے ہاتھوں ملنے والے ان سرٹیفکیٹس اور ایوارڈکی تو کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔ایسے سرٹیفکیٹ توہرگھراورہرکسی کے پاس درجنوں نہیں سینکڑوں پڑے ہوتے ہیں لیکن عوام جوسرٹیفکیٹ دیتے ہیں وہ پھرگھروں میں نہیں پڑے ہوتے بلکہ وہ آئندہ الیکشن اورانتخابات تک ماتھے پراس طرح آویزاں رہتے ہیں کہ دوربہت دورسے بھی ہرکسی کودکھائی دیتے ہیں۔کپتان نے تومعلوم نہیں کس خوشی میں ان وزیروں کوسرٹیفکیٹ دیئے ہیں ویسے آٹا،چینی،گھی،چاول،دال اوردودھ وسبزی سمیت ہرچیزکی قیمت ڈبل وٹرپل کرنے پرصرف ان دس وزیروں کونہیںبلکہ کپتان سمیت سب وزیروں بمعہ مشیروں کو سرٹیفکیٹس اور ایوارڈ دینے توبنتے ہیں لیکن یادآیاوہ ایوارڈاورسرٹیفکیٹس ان کوکوئی اور نہیں عوام دیں گے۔ اس لئے کپتان کے ہاتھوں سرٹیفکیٹس لینے پرخوشی سے پھولے نہ سمانے والے ان وزیروں کو ان سرٹیفکیٹس اور ایوارڈ کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ کیونکہ آج نہیں توکل ان کووہ سرٹیفکیٹس اور ایوارڈ بھی ضرور ملیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.