اصحاب الیمین کی تلاش

65

میں عرصہ دراز سے شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوں اور بہت سے سکولوں کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا مگر ہمیشہ میں اس تلاش میں رہی کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں فیس بھی مناسب ہوجس کی تعلیم بھی بہت معیاری ہو اور وہ مادیت کے بجائے تعلیم پر زور دے وہاں تعلیم برائے تربیت ہو اور سب سے بڑھ کر ہمارے بچے انگریزی زبان کوتو سیکھیں مگر اس کے کلچر کو نہ اپنائیں ان کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دین کی بھی مکمل تعلیم دی جائے کیونکہ اصل تعلیم تو وہی ہے جو دنیا اور آخرت میں کام آنی ہے. میں کئی سکولوں میں گئی جہاں پچاس ہزار فیس تھی وہاں بھی اور جہاں پانچ سو فیس تھی وہاں بھی اسلام کا پرچار کرنے والے سکولوں میں بھی اور انگریزی کلچر کا لبادہ اوڑھنے والے سکولوں میں بھی، مگر مجھے کہیں بھی تسلی نہ ہوئی ، تربیت کا پہلو ہمیشہ نظر اندازرہا اور مادیت پرستی کی بو بھی محسوس ہوتی رہی۔
پھر ایک دن میری ملاقات نامور عالم دین علامہ حشام الہی ظہیر سے ہوئی میں اپنی ایک دینی کتاب کے دیباچے کے سلسلے میں ان سے ملاقات کرنے گئی وہاں ان کو بتایا کہ میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ بھی ہوں جس پر انہوں نے مجھے دعوت دی کہ ان کے ادارے کا بھی وزٹ کروں۔ ان کی دعوت پر میں نے دورہ کیا۔ ادارے کے سربراہ راقب نعیم صاحب بہت قابل اور تعلیم دوست شخص ہیں انہوں نے وزٹ کروایا، سلیبس کے بارے میں  آگاہی دی یقین مانیں مجھے ایسا لگا میرے پیاسے من کو علم کے جس کنویں کی تلاش تھی وہ مجھے مل گیا۔ اس ادارہ میں وہ سب کچھ ہے جس کی خواہش ایک مسلمان والدین کو اپنے بچوں کے دینی اور دنیاوی مستقبل کے لیے ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے چند چیدہ چیدہ اہم چیزیں شئیر کرنا چاہوں گی۔
اس کو بنے ابھی دوسال ہونے والے ہیں
اور ماشااللہ کرونا کے باوجود یہاں دو سو سے زائد بچے ہیں۔ یہاں حفظ قرآن کی کلاسیں بھی موجود ہیں۔ بچوں اور بچیوں کا ایک الگ مدرسہ بھی ہے۔
اسے (نو پرافٹ نو لوس) کے اصول پر چلایا جا رہا ہے اور دو سال میں ہی اس کے وسائل سے ہائی سکول کی عمارت تیار کی جارہی ہے جبکہ ان کا مشن بچوں،  بچیوں کے لیے ایک جدید یونیورسٹی بنانے کا ہے۔ یہاں ائیر کنڈیشنڈ کلاس روم، پلے گرائونڈ ، جدید لائبریری، صاف ستھری عمارت ان کی تعلیم دوست پالسیی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کلاس روم بچوں کے آرٹ ورک سے مزین ہیں۔ یہاں ناظرہ قرآن، تجوید کے ساتھ، مسنون دعائیں بمعہ ترجمہ ، احادیث بمعہ ترجمہ، نماز بمعہ ترجمہ، تربیت ، حفظ القرآن، ، ترجمہ قرآن گرائمر کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق دی جا رہی ہے۔ اردو انگریزی گرائمر کو بائی لنگول میتھڈ کے جدید طریقے سے پڑھایا جا رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ روزانہ اسمبلی کا اہتمام ہوتا ہے اس کے لیے سٹیج بنایا گیا ہے اور یہاں ہر بچے کی شرکت لازمی ہے۔ یہ ایک بہت ہی منفرد اقدام ہے کیونکہ عام طور پر انہی بچوں کو بار بار موقع دیا جاتا ہے جو زیادہ بااعتماد ہوں اور باقی کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات کہ یہاں ابھی سے سپورٹس، آرٹ، دین اور مختلف سرگرمیوں کی سوسائٹیز ہیں بچوں کو ان کے رحجان کے مطابق سرگرمی میں شریک ہونے کا موقع ملتا ہے۔ علاوہ ازیں بچوں کی تربیت سے متعلق ایک پرفارما ہے جو والدین کو ہر مہینے پر کرکے دینا ہوتا ہے جس میں ان کی نماز کی پابندی، موبائیل ٹی وی کا ٹائم ، ان کی صحت ، ان کی خوراک اور اچھے اخلاق و عادات سے متعلق چیک لسٹ ہوتی ہے اس طرح سے والدین کو بھی طلبا کے تربیتی عمل میں شریک کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات والدین کو بچوں کے گھر واپس آنے سے پہلے ای ڈائری شئیر کردی جاتی ہے جس سے وہ بچوں کے روزانہ کے ہومورک اور کلاس ورک سے آگاہ رہتے ہیں۔ ہر کلاس روم کے باہر بچوں کے نام اور ان کی کارکردگی کے چارٹ لگائے گئے ہیں۔
یہاں چھٹی جماعت کا بچہ خود سے قرآن کو ترجمے سے پڑھنے کے قابل ہوجاتا ہے، بچے کے لیے کھیل کود، کپمیوٹر، پراجیکٹر، آرٹ کرافٹ سمیت ہر سرگرمی کا انتظام ہے۔ یہاں پر ای پی ایل ، جدید سائنس اور آئی ٹی لیب ، تعلیم بذریعہ سرگرمی اورعالمی فونکس سسٹم کے ذریعے تعلیمی عمل کا انعقاد اس کے بہترین سکول ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
یہاں پر اساتذہ سبجیکٹ سپیشلسٹ ہیں اور بہت دل جمعی سے پڑھا رہے ہیں۔ یہاں کی انتظامیہ کم تعداد میں ہونے کے باوجود بہترین نتائج دے رہی ہے یہ سب ایک عزم سے سرشار ہیں۔ سارا دن پڑھائی میں مصروف عمل بچوں کو چھٹی ہونے کے فورا بعد جب نماز ظہر کے لیے صف بند ہوتے دیکھا تو لگا میری تلاش ختم ہوگئی۔ پرنسپل آفس ، گرائونڈ سے لے کر واش روم تک اور کوریڈور سے لر کر کلاس روم تک ایک پاکیزگی، ترتیب، خوبصورتی اور نظم وضبط کا دلفریب احساس پایا جاتا ہے۔ سکول کے ڈ ائریکٹر علامہ حشام الہی ظہیر ہیں جو خود اس کے تمام معلاملات میں دلچپسی لے رہے ہیں اور تعلیمی میدان میں انقلاب لانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ یقین مانیں اس طرح کے ادارے معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔
ہماری نئی نسل کو اسلام سے جوڑنے کے لیے ، ان کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے ان کو مادیت پرستی سے دور رکھنے کے لیے، ان کی دنیا اورآخرت میں بھلائی کے لیے !
ہمیں روز محشر اصحاب الیمین میں شامل ہونے کے لیے ایسے علمائے دین کا ساتھ دینا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.