ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے

35

آخر کار حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ تحریک عدم اعتماد لانے کا ارادہ ظاہر کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ اسلام آباد میں بھی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہ رہی ہیں۔
ادھر حکومت نے بھی ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم (جو بظاہر بلدیاتی انتخابات کے ضمن میں ہے) کا عندیہ دے دیا ہے کہ وہ بھی عوام میں جا کر انہیں در پیش صورت حال بارے بتائے گی۔ حزب اختلاف تو اس بنیاد پر احتجاج کرنا چاہتی ہے اور عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے کہ حکومت نے مہنگائی اور آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط تسلیم کر کے صورت حال کو خراب کر دیا ہے لہٰذا اسے اب گھر جانا چاہیے مگر حکومت کس حساب سے جلسے کرنے جا رہی ہے۔ وہ کیا عوام کو بتانا چاہتی ہے؟
حکومت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس نے با اختیار ہوتے ہوئے وہ نہیں کیا جو اسے عوام کی بھلائی کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ اس نے غریب عوام کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ وہ کس طرح زندگی بسر کر یں گے۔ کیسے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے۔ انہیں تعلیم و صحت کی سہولتیں کیسے دلوائیں گے اس نے اس سے متعلق کبھی غور نہیں کیا۔ اگر غور کیا تو یہ کہ ان غریبوں کی جیبوں سے پیسے کیسے نکلواتے ہیں۔ اس حوالے سے اس نے کبھی پٹرول کبھی بجلی اور کبھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ علاوہ ازیں نئے نئے ٹیکس لگا کر ان کو مزید پریشان کر دیا۔ کیا عوام اسی لیے رہ گئے ہیں کہ وہ اشرافیہ کو آسائشیں فراہم کرنے کے لیے سخت محنت مشقت کریں مگر انہیں کوئی آسانی اور سہولیات میسر نہ ہو۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ مہنگائی نہ بڑھتی ہو۔ جب بھی اشیائے ضروریہ خریدنے جاؤ تو ان کی قیمتیں بڑھی ہوتی ہیں۔ پھر ستم یہ ہے کہ ان میں ملاوٹ بھی ہوتی ہے مگر ملاوٹ کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا متعلقہ ادارے دانستہ چشم پوشی اختیار کرتے ہیں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنا حصہ وصولتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت نے عوام کی خدمت نہیں کی ان سے خدمت کروائی ہے جس سے اب وہ تھک چکے ہیں ان کی برداشت ختم ہو گئی ہے لہٰذا اس کے خلاف کوئی سیاسی اتحاد تشکیل پا رہا ہے تو اس پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اس کے مقابل وہ جو سیاسی ہلچل مچانے کا پروگرام بنا رہی ہے اس کی کوئی منطق نہیں اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے بھاشنوں سے لوگ اتفاق کرتے ہوئے ایک بار پھر اس کے پیچھے چل پڑیں گے تو یہ اس کی خوش فہمی ہو گی۔ اب چڑیاں کھیت چگ چکی ہیں۔
عوام کو جو سہانے خواب دکھائے گئے تھے وہ پورے نہیں ہو سکتے کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا اب کہا جا رہا ہے کہ اس نظام کو تبدیل کرنے میں کافی وقت لگے گا یہی بات پچھلی حکومت کہہ رہی تھی تو پھر اسے اور وقت دیا جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اسے گھر بھجوانے کے لیے دھرنوں اور جلوسوں کا آغاز کر دیا گیا۔ کیا کیا نہ اس پر الزام عائد کیے گئے مگر جب وہ اقتدار سے الگ ہو گئی اور پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو گئی تو وہ بھی پرانی ڈگر پر چل نکلی۔
جی ہاں! آٹا چینی سکینڈل آ گئے۔ کمیشن خوری کے قصے زبان زد عام ہونے لگے۔ لینڈ مافیا کو پہلے کی طرح کھلی چھوٹ مل گئی۔ قبضہ گیری کے واقعات رونما ہونے لگے۔ تھانوں پٹوار خانوں میں رشو ت کا عام ہونا اور اس کے دام کا بڑھ جانا معمول بن گیا۔ اس طرح کی اور خرابات جنم لینے لگیں جو اب ہر کسی کو مضمحل کر رہی ہیں مگر دکھ مزید یہ ہے کہ کوئی بھی ذمہ دارعوام کے مستقبل کو روشن کرنے کا وعدہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔  ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے۔ ہر شعبہ آئی ایم ایف کی دسترس میں ہے۔ سٹیٹ بینک کو گویا گروی رکھ دیا گیا ہے۔ یوں پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ حکومتی عہدیداران کا موقف یہ ہے کہ وہ تو پچھلی حکومتوں کے لیے گئے قرضوں کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضے لے رہے ہیں۔ اب جب نئی حکومت آئے گی تو وہ بھی یہی کہے گی کہ ہم تو عمران خان کی حکومت کا کیا دھرا بھگت رہے ہیں۔ اس نے جو پالیسیاں اور منصوبے بنائے وہ سب کے سب غیر ضروری اور نقصان دہ تھے لہٰذا عوام کو صبر کرنا چاہیے مشکلات آئیں گی مگر انہیں تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرنا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ بات سوچنے کی ہے کہ یہ اقتداری چکر کب تک چلتا رہے گا کہ ایک آتا ہے اور دوسرا چلا جاتا ہے۔ جو آتا ہے وہ بھی اپنے وعدوں پو پورا نہیں اترتا اس کے دور میں بھی بدعنوانی ہوتی ہے۔ اقربا پروری کو فروغ ملتا ہے میرٹ کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ سینہ زور دندناتے پھرتے ہیں دو نمبریے اپنا دھندہ جاری رکھتے ہیں۔ ان تمام خرابیوں کے انتہا کو پہنچنے پر حکمرانوں کو برا بھلا کہا جانے لگتا ہے ان سے بیزاری اور اکتاہٹ شدید تر ہو جاتی ہے لہٰذا اسے ناکام و نااہل قرار دے کر اگلے کے لیے راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔
اس وقت بھی یہی صورت حال ہے کہ عمران خان ناکام حاکم قرار پا چکے ہیں عوام میں غیر مقبول ہو گئے ہیں۔ لہٰذا کسی اگلے کا کام آسان ہو گیا ہے جس نے اقتدار میں آ کر بس گونگلوؤں سے مٹی ہی جھاڑنا ہے اپنا عرصہ اقتدار عارضی پالیسیوں کے بل پر گزارنا ہے اور آخر میں غیر مقبول ہو جانا ہے۔ حکمران طبقہ نجانے کیوں عوامی مفاد کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا۔ وہ اقتدار کی حصول کی خاطر سارے وعدے بھلا دیتا ہے۔ اسے آئی ایم ایف پر ہی کیوں انحصار کرنا پڑتا ہے اور اس کی شرائط کو ہی من و عن ماننا ہوتا ہے۔
بہرحال عمران خان نے چین کے دورے کے بعد یہ امید دلائی ہے کہ ملک خوشحال کی جانب بڑھے گا کہ انہوں نے چینی حکام کے ساتھ زراعت ، صنعت ، تعلیم، صحت انفراسٹرکچر ، سرمایہ کاری، خلا ، ماحولیات و دیگر کی مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے ہیں اور دو طرفہ تعاون کو یقینی بنایا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر حکمران نے ہمیشہ اس نوعیت کے دورے کیے ہیں مگر چوہتر برسوں میں کوئی خوشحالی نہیں آئی حالات بد سے بدتر ہوئے۔ اصل مسئلہ خلوص کا فقدان ہے جب تک ہمارے حکمران خود کو عوام کا خادم نہیں بناتے کتنے ہی دورے کر لیں کتنے ہی معاہدے کیوں نہ کر لیں یہ چمن یونہی رہے گا کہ طاقتور اور طاقتور دولت والے اور دولت مند اختیارات والے اور اختیارات کے مالک ہوتے رہیں گے لہٰذا معذرت کے ساتھ حزب اختلاف موجودہ حکومت کو بے شک آئینی طور سے ہٹائے کیونکہ اس نے عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر امیر طبقے کو خوش کیا ہے جو پہلے ہی غریب عوام کی کھال ادھیڑ رہا ہے اور زندگی کو اذیت میں بدل رہا ہے مگر کیا وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس نظام کو تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہو گی اس کے پاس آئی ایم ایف سے پیچھا چھڑانے کا کوئی ٹھوس منصوبہ ہو گا؟ ہمیں نہیں لگتا کہ وہ ایسا کوئی پروگرام رکھتی ہو گی کیونکہ اہل زر جہاں کہیں بھی ہوں چھوٹے ہوں یا بڑے ان کے مفادات ایک ہوتے ہیں لہٰذا ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا چلئے دیکھتے ہیں کہ کل کیا ہوتا ہے فی الحال ملک میں سیاست کا میدان سجنے والا ہے۔ فریقین خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ اس میں اترنے والے ہیں مگر یہ طے ہے کہ عوام کے ہاتھ پھر کچھ نہیں آئے گا۔ ان کا جیون قدرے بہتر ہو سکتا ہے مگر پر آسائش نہیں
ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے
آس کا سورج نہ نکلا غم کے بادل چھا گئے

تبصرے بند ہیں.