نیپلز یونی ورسٹی

65

انسانی ذہن اَن دیکھے لوگوں اور جگہوں کی خیالی تصویریں بنالیتاہے ۔میرے متخیلہ نے بھی نیپلزیونی ورسٹی کی غائبانہ تصویربنارکھی تھی ۔ایک عظیم الشان ،وسیع وعریض اور خوش منظر عمارت جس کے پارکوں اور سبزہ زاروں میں ہنستی مسکراتی زندگی اٹکھیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہوگی ۔یونی ورسٹی کے ایک بلاک سے دوسرے بلاک تک جانے کے لیے بیٹری سے چلنے والی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں چل رہی ہوں گی،لائبریری کی وسعتوں کے سامنے میری دیکھی ہوئی مشرق و مغرب کی لائبریریاں ماندپڑجائیں گی ۔اساتذہ کے کمرے دیکھ کرایک ایشیائی پروفیسر تیسری دنیاکے باشندوں والے احساس کمتری کا شکارہوجائے گا۔ اس تصویرکو رنگ و روغن مغربی ممالک اور معاشروں سے متعلق ہمارے تصورات ِعظمت نے فراہم کیاتھا۔وہ ادب و احترام اس رنگ وروغن پر مستزاد تھا جو اردوکے بین الاقوامی خدمت گاروں کے لیے میرے دل میں پایاجاتاہے ۔میں نیپلز یونیورسٹی جارہاتھاتو میرے خیالات کے سلسلے پروفیسربائوسانی کی تصویریں بنارہے تھے ،پروفیسرکاملّوتالیابوئے یادآرہے تھے جنھوںنے یہاں رہ کر صرف اردوکی تدریس ہی نہیں کی بلکہ اردوکی گرامر(Grammatica della Lingua Indostana O Urdu) لکھی جس کی دوجلدیں ۱۸۹۲ء میں روم سے شائع ہوئیں۔ ان کا ذکرگارساں دتاسی نے اپنے لیکچرمیں کیاہے ۔ماتیورپّا Matteo Ripa نامی کیتھولک مشنری بھی تصورات کے سلسلوں میں ابھرتارہاجواگرچہ اردوسے متعلق نہیں تھالیکن اس نے۱۷۳۲ء میں اوّل اوّل اس ادارے کی بنارکھی۔یہ ادارہ ۱۸۶۸ء میں مشرقی علوم کا شاہی مدرسہ قرارپایا۔ بیس برس بعد اورینٹل انسٹیٹیوٹ بنااور ۱۹۳۷ء میں یونی ورسٹی بن گیا۔
تصورات کے ڈوبتے اُبھرتے سلسلوں میں سب سے نمایاں نام بائوسانی کا تھا۔ الیزیندرو بائوسانی (۲۹؍مئی ۲۹۲۱ء… ۱۲مارچ ۱۹۸۸ء) اردو، اسلامیات، عربی اور فارسی کے سکالر تھے جنھوںنے متعدد مذہبی متون کا اطالوی زبان میں ترجمہ کیا۔ وہ کئی بار پاکستان آئے، انھوںنے قرآن
حکیم، انجیل نیز بدھ اور زرتشت کے افکارکو اطالوی کے روپ میں پیش کیا۔وہ تیس زبانیں جانتے تھے اور وہ مختلف اوقات میں عربی، فارسی، اردوکی تدریس سے وابستہ رہے۔ انھوںنے ابن سینا،رومی،نظامی ،عمرخیام اور علامہ اقبال کے کلام کا بھی اطالوی ترجمہ کیا۔ وہ نیپلزیونی ورسٹی میں عربی، فارسی اور اردوہی کے استاد نہیں انڈونیشی زبان کے بھی استاد رہے۔روم یونی ورسٹی میںمسندعلوم اسلامیہ کے سربراہ اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیزکے ڈائریکٹررہے ۔مختلف علمی و عالمی موضوعات پر دسیوں کتابوں کے مصنف تھے ۔جن میں Storia delle letterature del Pakistan: Urdu, Pangiabi, Sindhi, Beluci, Pasc’to, Bengali Pakistana,کے زیرعنوان پاکستانی ادب کی تاریخ بھی شامل ہے ۔یہ کتاب پہلی بار میلان سے ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۶۸ء میں فلورنس اور میلان سے اس کا نظرثانی شدہ ایڈیشن چھپا۔ وہ اسلام، اردو اور پاکستان سے محبت کرنے والے مشرق شناس تھے۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی کے پہلے بین الاقوامی کلوکیم میں شرکت کے لیے لاہورآئے توجب اپنے بھی انگریزی کارعب جھاڑرہے تھے توانھوںنے اردومیں تقریرکرکے لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ وہ بین الاقوامی فلسفہ کانگریس اور علامہ اقبال کی صدسالہ تقریبات میں شرکت کے لیے بھی پاکستان آئے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ستارئہ امتیاز اور ہلال امتیازدے کران کی خدمات کا اعتراف بھی کیاگیا۔ انھی کی توجہ سے ڈاکٹر اقتداحسن یہاں سے اطالیہ پہنچے اورنیپلز یونی سے وابستہ ہوئے ۔عمربھر مشرقی علوم پڑھنے پڑھانے اور عربی واسلامیات سے تعلق نے انھیں اسلام سے اتنا قریب کردیاکہ اپنی روحانی تشنگی کی تسکین کے لیے انھوںنے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیالیکن یہ کیاکہ وہ اسلام کی جانب ملتفت ہوتے ہوتے بہائیت کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔
خیالات کے انھی سلسلوں میں ہم نیپلز یونی ورسٹی پہنچ چکے تھے لیکن یہ کیا جس گلی میں جاکرہماری ٹیکسی رکی وہ تو رنگ محل لاہورکاکوئی گوشہ دکھائی دیتی تھی ۔یہاں وہ عظیم الشان ،وسیع وعریض اور خوش منظر عمارت یکسرغائب تھی جس کا نقشہ میں اپنے تخیل کی مدد سے بناچکاتھااس کی جگہ گلیوں میں گھری ہوئی ایک قدیم اور بلندوبالا عمارت میرے سامنے تھی جیسے اندرون لاہور کے گھروں میں گھری ہوئی کوئی بڑی سی حویلی ۔میرے جہان تخیل میں جنم لینے والے پارک، سبزہ زار،گاڑیاں سب ہواہوگئے۔ نیپلزکا حسن ِفطرت، جس کی تفصیلات یہاں کے شاعربیان کرتے ہیں اوراس کی مشہورزمانہ خلیج، جس کے کنارے جانے کتنے جوڑوں نے عہدوپیمان باندھے ،ایسا کوئی منظر سامنے نہ تھا ۔بڑے سے صدردروازے سے اندر داخل ہوئے تو چھوٹا ساصحن اور اطراف میں کمرے۔ ایک جانب اوپرجانے کا راستہ ،صحن اتنابھی نہیں جتنا ہمارے ہاں پرانی حویلیوں کا ہوتاتھا۔پہلی نظر میں تو بڑی مایوسی ہوئی۔ ہماری نگاہیں یونی ورسٹیوں کی جیسی عالی شان عمارتوںسے آشناہیں ان کے سامنے یہ عمارت زیادہ سے زیادہ کسی رئیس کی حویلی ہوسکتی تھی، پھروہ مسافر جس نے جامعہ الازہرمیں پڑھایاہواور پنجاب یونی ورسٹی میں رہتاہو،وہ اس عمارت کو کیسے یونی ورسٹی تسلیم کرے کہ یہ دونو یونی ورسٹیاں اپنی مکانی وسعت میں دنیاکے بعض ملکوں سے زیادہ رقبے کی حامل ہیں ۔کہتے ہیں کہ نیپلزوالوں کی ایک کمزوری یہ ہے کہ و ہ ہماری نیک دل خواتین کی طرح دوسروں سے صرف اپنی خوبیوں کا بیان پسندکرتے ہیں ۔چلیے ’’ہنرش نیزبگو‘‘کے اصول پربارے اپنے میزبانوں کی خوبیوں کا بھی کچھ بیاں ہوجائے ۔جناب یہ وہ یونی ورسٹی ہے جہاں یورپ میں سب سے پہلے اردوکی تدریس شروع ہوئی ۔جہاں سے اس وقت پانچ ریسرچ جرنل شائع ہوتے تھے جب میک گل جیسی مشہوریونی ورسٹی سے ایک بھی ریسرچ جرنل شائع نہیں ہوتاتھا ۔یہ وہ یونی ورسٹی ہے جس نے اردوقواعداو گرامرکی کتابیں شائع کیں ،صرف یہی نہیں یہاں قائم چاندپوری جیسے کلاسیکی اردوشاعر پر کام ہوا اور جس ادارے نے تین شاندارجلدوں میں قلندربخش جرأت کااردو کلیات شائع کرنے کی جرأت کی، جس کے سرورق پردرج ’’یکی از مطبوعات شعبہ ہندوپاکستان‘‘ اور ناشر کے طورپر ’’استی توتواونیورسیتاریواوریئینتالے نیپلز، اطالیہ‘‘کے الفاظ اردواور پاکستان کے لیے اطالیہ میں پائے جانے والے روشن امکانات کی نشان دہی کرتے ہیں:۔
نغموں کا فسوں، چاندکی ضو ،پھولوں کی خوشبو
اس حسن دلآرا پہ شباب اترے ہیں کتنے

تبصرے بند ہیں.