حکم اللہ کا… آگے کچھ نہیں

76

پاکستانی قوم گزشتہ ستربرس یعنی اپنی پیدائش کے تین چار سال بعد سے غیرآئینی صاحبانِ اقتدار حقیقی اور ہر قیمت پر کرسیوں پر براجمان ہونے کی ہوس میں مبتلا سیاستدانوں کے باہمی مسائل میں الجھی چلی آ رہی ہے… عوام اس ملک کے اس چکی میں بار بار پستے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بیرونی دنیا میں ملک کا وقار باقی نہیں رہا… خارجہ پالیسی کا ایک مسئلہ حل نہیں ہوا کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ مضبوط تر ہو گیا ہے… افغانستان کی 40 سالہ جنگ لڑنے کے باوجود وہاں کا بارڈر غیر محفوظ ہے… ہمیں کرائے کے سپاہیوں کے نام سے نوازا جاتا ہے شاید یہ الزام قطعی طو پر غلط ہو… مگر ڈالر اور اسلحہ لے کر ہم نے جنگیں تو اغیار کی لڑی ہیں… اندرونِ ملک خلفشار اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے… مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفانوں نے عام آدمی کا جینا اجیرن کر دیا ہے جس کا واویلا تو بہت مچایا جا رہا ہے لیکن مقتدر سیاستدانوں اور ان کے اوپر ڈوریاں ہلانے والی مقتدر قوتوں کو اس کی پروا نہیں… ان حالات میں یہ ملک کب تک اور کیونکر چلے گا اس کا کسی کے پاس جواب نہیں… وردی والے کہتے ہیں جب تک وہ اور ان کی منظم قوت موجود ہے مملکت پاک کو کسی کی پروا نہیں وہ اپنی کشتی کو خطرات سے نکالنا جانتے ہیں… شاید درست کہتے ہوں مگر مشرقی پاکستان کو کیوں نہ سنبھال پائے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں… ان کا مسئلہ مگر روزِ اوّل سے ایک رہا ہے ریاستی و حکومتی اقتدار میں ہمیں باقاعدہ حصہ دو نہیں تو یکے بعد دیگرے مارشل لائوں کو قبول کرو… آج کی لڑائی بھی یہ ہی ہے… ملک و قوم انتہائی تنزل کا شکار ہو چکی ہے مگر انہیں صرف ایک فکر لاحق ہے حکومت عمران خان کرے یا نوازشریف ان کے آئینی یا غیرآئینی کردار کو تسلیم کرے گا یا نہیں… نواز کو اسی لئے اٹھا پھینکا گیا ہے مگر عمران خان تو تابع مہمل بننے کے لئے تیار تھا اس بنا پر لمحہ موجود کی قومی سیاست تعطل کا شکار چلی آ رہی ہے کہا جاتا تھا نواز کی کسی آرمی چیف کے ساتھ نہیں بنتی اب قوم پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے دونوں عہدے بالآخر ٹکرا کر رہتے ہیں…
سیاستدانوں کے ہجوم بے کراں پر نگاہ ڈالئے وہ تو سب ان گملوں کی پیداوار ہیں جو ایک آدھ باقی بچ گیا ہے اسے گزرا ہوا سنہرا زمانہ یاد آتا ہے مگر کچھ کر نہیں پاتا… ہر سیاستدان خواہ کس قد کاٹھ کا مالک ہو کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تابعداری کو قومی گناہ سے کم نہیں سمجھتا مگر اندرخانے سے بلاوا آتا ہے تو بقول ایک
سابق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر دم ہلاتا حاضری دینے چلا جاتا ہے پھر ان کی خوب درگت بنتی ہے… ایک کو دوسرے کے خلاف کھلایا اور لڑایا جاتا ہے… ان پر کرپٹ ہونے کے الزامات کی بارش کی جاتی ہے… الزام تراشی کے فقرے ان کے منہ میں ڈالے جاتے ہیں… یہ الزامات آج پہلی مرتبہ تھوڑی لگائے جا رہے ہیں… سہروردی اور دولتانہ پر ایبڈو اور نالائقی کا پابند کیوں کہا گیا ثابت ایک نہیں ہوا… وہ یہ کہہ کر دنیا سے چلے گئے یہ ہمیں میدانِ سیاست و عمل سے نکال باہر پھینکنے کی تراکیب کے علاوہ کچھ نہیں تھا… آج بھی سیاسی مطلع پر کرپشن کرپشن کی آوازیں سننے کو مل رہی ہیں… عمران نے ساری سیاست نواز کے خلاف کرپشن کے الزامات کی بارش برسانے میں لگا دی… اٹھتے بیٹھتے کہتا ہے منی ٹریل لائو نواز اور اس کے ہمنوا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ اس کے منہ پر دے مارتے ہیں اور سرعام کہتے ہیں یہ ہے تمہاری اوقات… تم ہمیں کیا سمجھتے ہو… ہمارے لیڈر نے ترقیاتی پراجیکٹس کی نت نئی مثالیں قائم کیں… بھٹو کے ایٹمی پروگرام کو اختتام تک پہنچایا… وہ کارنامہ جو کسی سے نہ ہو سکا کر دکھایا… دفاع مملکت کو ناقابل تسخیر بنایا… تم نے اپنے تین سال میں کیا خاک چاٹی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے اسٹیبلشمنٹ کو ناپسندیدہ کہنے کے باوجود یہ سب لوگ اس کے حضور حاضریاں کیوں بھرتے ہیں… باہر کھڑے ہو کر آئین اور جمہوریت کی سربلندی کا نعرہ لگاتے ہیں… اندر اپنے آپ کو پیش کر کے جھک جھک جاتے ہیں… تماشا لگانے والے جانتے ہیں ان کے بغیر ایک قدم آگے بڑھا نہیں پائیں گے… اسی میں ملک و قوم کا ستیاناس ہوا جا رہا ہے اور قومی سیاست کیچڑ بن کر رہ گئی ہے … کپڑے آلودہ ہیں تعفن سا اٹھ رہا ہے…
آئینِ مملکت کا مسئلہ ہے اگرچہ متفق علیہ ہے قوم کے اعلیٰ شعور اور زندہ ضمیر کی عکاسی کرتا ہے اسے بار بار پھاڑا اور لتاڑا گیا ہے… مارشل لائوں کے ادوار میں زبردستی کی ترمیمات ٹھونسی گئیں… ہر مرتبہ اس نے انہیں حقارت کے ساتھ اٹھا پھینکا ہے… اپنے صاف ستھرے اور اجلے لباس میں ایک فاتحانہ شان کے ساتھ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے… بڑے بڑے طاقتوروں کے ساتھ آنکھیں چار کرتا ہے… سمجھتا ہے اگرچہ میں دوسیر کے کاغذوں کا ٹکڑا ہوں مگر تم سب پر بھاری ہوں… ہٹا سکتے ہو تو ہٹا لو وہ سر جھکائے آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں… مقتدر قوتیں زچ ہو کر پس پردہ صدارتی نظام کی دہائی دیتی ہیں قومی حلقے تھو تھو کرتے ہیں… جمہوریت ہمارے آئین کا لبادہ ہے… قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسے یہ پہناوا پہنایا تھا جو دنیا کی پہلی جمہوری اور آئینی دستاویز ہے… اس پر فخر کرتا ہے اسی لباسِ فاخرہ کے ساتھ ہنستا اور مسکراتا ہے مگر یہ جو ہمارے سیاستدان ہیں وہ اس کے حضور ہدیہ تبریک تو پیش کرتے ہیں… دیکھا دیکھی وردی والے بھی اپنا نذرانہ لئے چلے آتے ہیں اس سے آگے اپنی مرضی چلاتے ہیں… یہیں پر خرابیاں جنم لیتی ہیں… ٹکرائو وجود میں آتا ہے… عوام پاکستان کے سب کچھ دیکھتے ہیں… انہیں آئین اور جمہوریت کی سربلندی کا جھانسہ دینے کی نت نئی ترکیبیں نکال لی جاتی ہیں… آنکھوں میں دھول ڈالی جاتی ہے… اسی خمار میں ووٹ ڈالنے چلے جاتے ہیں… نتیجہ آتا ہے تو نام نہاد دفاع کے حق میں تالیاں بجاتے ہیں… بعد میں مایوسی کا بھی جلد شکار ہو جاتے ہیں… اسے حکمران کو اٹھا پھینکنے کے لئے سڑکوں پر آنے کو ترجیح دیتے ہیں… پھر وہی پُرزور تالیاں، کشتی جاری رہتی ہے اور خلیفہ چوکڑی لگا کر اس کا نظارہ لیتا ہے… ہر دور میں سے کوئی پہلوان صاحب اکھاڑے میں آتے ہیں تو استاد سے پوچھتے ہیں حکم استاد جی وہاں سے جواب ملتا ہے حکم اللہ کا بس ہمارے معاملات میں اللہ کا اتنا ہی حکم چلتا ہے… اس سے آگے ہمارے مفادات اپنا گندہ کھیل شروع کر دیتے ہیں…

تبصرے بند ہیں.