تبدیلی… ہمیشہ یادرہے گی

18

ہم مانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ایک نہیں ہزاراورلاکھ باربڑے ایماندار ،امانت دار،دیانت دار،ہوشیار،درددل،متقی اورپرہیزہوں گے لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ ۔اپنے صرف اپنے لئے۔دوجمع دوکوچارروٹیاںبنانے اور سمجھنے والوں کے لئے عمران خان اس وقت ایک آفت،ایک مصیبت اورایک بڑے ناگہانی عذاب سے ہرگزہرگزکم نہیں۔صحت ،تعلیم،بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات اورسہولیات ہرانسان کے لئے ضروری ہیں لیکن یہ سہولیات اورضروریات اگر میسر یافراہم نہ ہوں توپھربھی جیسے تیسے انسان یاانسانوں کی زندگی گزرتی رہتی ہے مگر۔؟مگرپیٹ کاجہنم بھرے بغیرزندگی کیا۔؟انسان پرایک وقت اورایک لمحہ بھی کبھی نہیں گزرتا۔دنیاکے اندریہ دوڑدھوپ، لڑائی جھگڑے،نوکری،غلامی اورمحنت مشقت ہی تواس جہنم کوبھرنے کے لئے ہے۔پیٹ بھرنے کی فکراگرنہ ہوتی توکون کافر پھر دن، رات، گرمی، سردی، حرام، حلال، جائز، ناجائز، جوانی، بڑھاپے، بیماری، تندرستی، غلامی اور آزادی میں تمیز بھول پاتا۔؟اصل مسئلہ ہی تواس جہنم کوبھرنے کا ہے۔ انسان سب کچھ برداشت کرلیتاہے لیکن وہ بھوک اورافلاس کوبرداشت نہیں کرسکتا۔آج لوگوں کی اکثریت اگروزیراعظم عمران خان اوران کی حکومت سے تنگ وعاجزہے تواس کی بڑی وجہ ہی غریبوں کے پیٹ پرلات مارناہے۔حکومتی وزیراورمشیرایک نہیں ہزاربلکہ لاکھ بارپریس کانفرنسزومیڈیاٹاک میں کپتان کی ایمانداری کے قصیدے پڑھیں اورکہانیاں سنائیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان قصیدوں اورکہانیوں سے اب عوام کوبہلایانہیں جاسکتاکیونکہ عوام کودووقت کی روٹی چاہئیے جوکپتان اوران کے کھلاڑیوں نے ان سے چھین لی ہے۔ قصوں، کہانیوں اورقصیدوں سے اگرکام چلتاتوکپتان کو دن کی روشنی میں یہ ڈرائونے خواب کبھی نہ آتے۔ عوام نے تین ساڑھے تین سال میںحکومتی وزیروں اورمشیروں سے قصے اورکہانیاں بہت پڑھیں اور سنیں۔ اب عوام روٹی شوٹی کے علاوہ قصے اورکہانیاں کیا۔؟کوئی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ نادان کپتان اوران کے ناسمجھ وزیر اور مشیر تو یہ بات نہیں مان رہے لیکن حق اورسچ یہ ہے کہ ان کی حکومت نے اس ملک کے غریب عوام سے جینے کی امید، آس اورسہاراتک چھین لیاہے۔عوام پراس قدرظلم توآمریت کے دورمیں بھی کبھی نہیں ہواہوگاجتناظلم انصاف کے ان علمبرداروں نے عوام پر تین سال سے ڈھایاہواہے۔مہنگائی،غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے آج اس ملک میں ہرشخص رو رہا ہے لیکن کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔ بھوک سے بلکنے اور تڑپنے والا غریب جب ان سے مہنگائی اوربیروزگاری کاگلہ یا شکوہ کرتاہے توبجائے اس غریب کوکوئی دلاسہ دینے کے کپتان سمیت یہ سارے کھلاڑی آگے سے امریکہ ، برطانیہ،آسٹریلیااورجاپان کی مثالیں دینا شروع کردیتے ہیں کہ صرف یہاں نہیں وہاں بھی مہنگائی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اوردوسری طرف بادشاہ سلامت اوران کے بدمست وزیروں و مشیروں کارویہ دیکھیں توواللہ افسوس بہت افسوس ہوتاہے۔لوگ ان کوکیاسمجھ رہے تھے اوریہ نکلے کیا۔؟یہ تووہی کھودا پہاڑ نکلاچوہاوالی بات ہوگئی۔عقل سے کورے اوربینائی سے محروم ان عجوبوں سے کوئی یہ پوچھے توسہی کہ یہ نہ کوئی امریکہ ہے نہ برطانیہ، آسٹریلیا، سعودیہ اورنہ کوئی جاپان۔ یہ وہ بدقسمت پاکستان ہے جہاں آپ جیسے عجوبے ہی حکمران بنتے اورٹھہرتے ہیں۔ کیا امریکہ، سعودیہ، برطانیہ یاجاپان میں آپ جیسے کسی مسخرے کوحکومت یاوزارت کبھی ملتی ہے۔؟پٹرول کی قیمتوں اورمہنگائی کے تناسب کوتوآپ باہرکی دنیاسے ناپتے اورجوڑتے ہیں لیکن کیاآپ نے یہاں کی معیشت ،تعمیر،ترقی،خوشحالی اورسہولیات کابھی کبھی امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب یاجاپان کے ساتھ موازنہ کیا۔؟یہاں فی کس کی آمدن کیاہے اور امریکہ وجاپان میں اس کا تناسب کتنا ہے۔؟ یہاں آپ کی حکمرانی اور نگرانی میں ایک غریب مزدور کو روز کتنی دیہاڑی ملتی ہے اور باہر کی دنیا میں ایک مزدور روز کا کتنا کماتا ہے۔؟ باہرکی دنیامیں اگر مہنگائی ہے تووہاں تنخواہیں اورسہولیات بھی توہے۔ہمیں نہیں لگتا کہ باہر کی دنیا میں اس طرح قدم قدم پرٹیکس ہوں۔ یہاں صرف بجلی وگیس کے بل اٹھا کر دیکھیں تواس میں ٹیکسزکے علاوہ کوئی شئے نہیں۔ اوپر سے لیکرنیچے تک صرف ٹیکس ہی ٹیکس ہے۔ماچس کی ڈبی سے لیکرنسوارکی پڑی تک یہاں ایک ایک چیزپرڈبل
اورٹرپل ٹیکس لیا جاتا ہے اور پھر بھی یہ رونا رویا جاتا ہے کہ یہاں لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ غریب لوگ جوتنخواہیں اور مزدوری لیتے ہیں وہ ان ٹیکسز کے ذریعے ہی واپس کردیتے ہیں سچ پوچھیں تو پھر پیچھے ان کے پاس کھانے پینے کے لئے بھی کچھ نہیں بچتا۔ سوچنے کی بات ہے تنخواہ اورمزدوری تک ٹیکسزکے نام کرنے کے بعداوروہ کیاٹیکس دیں۔؟ جس کے پاس دونہیں ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی کچھ نہ ہوآپ خودسوچیں وہ پھر کسی کوکیادے گا۔؟یہاں ہرشخص کے پاس نہ بنی گالہ جتناتین سوکنال کامحل ہے اورنہ ہی رائیونڈاورلاڑکانہ جیسی کوئی قیمتی اراضی۔ماناکہ کپتان کے کھلاڑیوں کی بھی نہ صرف اپنی کنالوں اراضی ہے بلکہ ان میں سے اکثراپنے ذاتی سکولز، ہاسپیٹل، ٹرانسپورٹ، پٹرول پمپس، فیکٹریوں اورکارخانوں کے مالک بھی ہیں لیکن معذرت کے ساتھ اس ملک میں عوام کی اکثریت کے پاس کوئی محل ہے اورنہ ہی کوئی تاج محل۔اس عمرانی دورمیں تواب عوام کی اکثریت چھونپڑیوں میں رہنے کے ساتھ ایک ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی دربدرہے۔سبزباغ اورسہانے خواب دکھاکرکپتان نے اس ملک کے غریب عوام کواس مقام تک پہنچادیاہے کہ جہاں اب نہ آگے جانے کا کوئی راستہ ہے اورنہ پیچھے مڑنے کی کوئی امید۔ کپتان اورکپتان کے یہ کھلاڑی آج ہیں توکل نہیں ہوں گے۔یہ حکومت ،اقتداراوریہ کرسی یہ توآنی جانی شئے ہیں۔ہم نے تواس ملک میں صبح کے تخت نشینوں کوبھی شام کوروتے ،دھوتے اورروڈماسٹری کرتے دیکھاہے۔سوال یہ نہیں کہ ان نادانوں سے غریب عوام کی جان کب چھوٹے گی سوال یہ ہے کہ غریب عوام کااب ہوگاکیا۔؟کیونکہ اقتدار وکرسی کے شوق میں مست کپتان اوران کے کھلاڑیوں نے عوام کے کندھوں پرجوبوجھ لادھ دیا ہے اب اقتدارمیں آنے والاکوئی بھی حکمران اس کوآسانی سے اتار نہیں سکے گا۔ چودہ سو کا آٹا سات سو، ساڑھے تین سوکی گھی ڈیڑھ سو اور سو روپے کی چینی پچاس روپے پرکیسے واپس آئیگی۔؟ پٹرول ،ڈالر، گیس وبجلی کی قیمتوں کوجوانصافی پر لگے ہیں وہ کیسے کٹیں گے۔؟یہ سوچتے ہوئے بھی غریبوں کی قسمت پرروناآنے لگتاہے۔کیونکہ اس ملک میں راتوں رات قیمتیں بڑھانے اورلوٹ مار کا بازارگرم کرنے کارواج توہے پربڑھتی قیمتوں کوکم یا لوٹ مارکوکنٹرول کرنے کاکوئی طریقہ نہیں۔ کپتان اوراس کے کھلاڑی اورکچھ کریں یانہ۔ انہوں نے تین ساڑھے تین سال میں مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی صورت میں عوام کے لئے یہ جوتاریخی کارنامے سرانجام دیئے ہیں آپ یقین کریں اس ملک میں روٹی کے ایک ایک نوالے کے لئے بھوک سے بلکنے، تڑپنے اور رلنے والے غریب کپتان کے ان کارناموں کو کبھی بھول نہیں پائیں گے۔کپتان اورکپتان کے یہ کھلاڑی اقتدارمیں ہوں یااقتدارسے باہر۔ عوام ان کی لائی ہوئی اس تبدیلی کوہمیشہ یادرکھیں گے۔ اس لئے کپتان ،کپتان کے کھلاڑیوں اوران کے چاہنے وگیت گانے والوں کوبہت بہت مبارک ہوکہ انہوں نے عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے جگہ بنالی ہے۔

تبصرے بند ہیں.