ذمہ دار کون ؟

24

ہر ملک کے عوام چاہتے ہیں کہ وہ ایک محفوظ ملک میں رہیں اور اپنے ملک میں بغیر کسی خوف کے آسانی سے گھومیں پھریں اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام اور اپنے ملک کے صحافی جو کہ اس ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک عوامی نمائندے اور عام عوام کو اچھا تحفظ فراہم کرے انہی چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی کی حکومتوں نے ملک میں عوام کو تحفظ دینے کے لیے ایک اقدام اٹھایا اور یہ اقدام ماضی کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اٹھایا جن کا تعلق ن لیگ سے ہے انہوں نے صوبہ پنجاب کے 6 بڑے شہروں میں 44 ارب روپے کی لاگت سے سیف سٹی پروگرام قائم کیا جس سے لاہور فیصل آباد راولپنڈی گوجرانوالہ ملتان اور بہاولپور کی سکیورٹی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس منصوبے کو بہترین طریقے سے چلانا موجودہ حکومت کی ذمہ داری تھی میں سمجھتی ہوں حکومت اس منصوبے میں بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔
پہلے مرحلے میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے تحت لاہور میں 13 ارب روپے کی لاگت سے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے نگرانی کے ایک جامع نظام پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کی گئی اس سلسلے میں سیف سٹی کے کنٹرول روم بھی قائم کیے گئے اور عوام کو یہ بتایا گیا کہ یہاں پر دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے گی کیمروں کی مدد سے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ شہر میں اربوں روپے کی لاگت سے لگایا گیا منصوبہ سیف سٹی اپنی افادیت کھونے لگا دیکھیں ماضی کی حکومت کا کام تھا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانا اور عوام کے تحفظ کے لیے پروگرام متعارف کرانا مگر اس پروجیکٹ کی نگرانی کرنا آگے آنے والی حکومت کی ذمہ داری تھی مگر حکومت افسوس یہ بھی نہ کر سکی وہ اس طرح سے کہ لاہور شہر جسے پنجاب کا دل کہا جاتا ہے ایک ہی ماہ کے اندر تین دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہو گیا۔
شہر میں ہونے والے کئی بڑے واقعات میں سیف سٹی منصوبہ بھی پولیس کی مدد نہ کر سکا کئی بڑے واقعات کی واضح فوٹیج انویسٹی گیشن پولیس کو نہ مل سکی۔سب سے پہلے ن لیگی ایم پی اے بلال یاسین جو کہ سابق وزیرخوراک بھی رہے ہیں ان پر قاتلانہ حملہ وہ بھی باآسانی بغیر کسی خوف کے مجرموں نے آکر ان پر گولیاں برسا دیں اور تو اور واپس ان مجرموں کا مڑ کر آنا دوبارہ گولیاں برسانے کے لیے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتا ہے مجرموں کی۔ اس معاملے کی تحقیقات جب کی گئی تو معلوم ہوا کہ سیف سٹی کے متعدد کیمرے نہ چلنے کی وجہ سے پولیس کو مجرموں کو ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔
پھر دوسرا بڑا واقعہ لاہور کا مشہور و معروف بازار انارکلی جہاں ہر وقت عوام کا ہجوم ہوتا ہے وہاں پر ڈیڑھ کلو بارودی مواد نصب کرنا اور دھماکہ ہو جانا جس میں قیمتی جانیں چلی گئیں اور متعدد لوگ شدید زخمی ہوگئے جب یہاں پر بھی سیف سٹی کے کیمروں سے مدد لینا چاہا تو معلوم ہوا کہ ایک ہی کیمرہ کام کر رہا ہے جبکہ متعدد کیمرے خراب پائے گئے۔ جب کہ وزیرداخلہ شیخ رشید انارکلی واقعے سے ایک روز پہلے ہی میڈیا پر بیان دے رہے تھے کہ ملک میں دہشت گردی کا خطرہ ہے یہ پوچھنا چاہوں گی میں یہاں پر کہ پنجاب حکومت خواب خرگوش میں تھی سیف سٹی کے متعدد کیمرے خراب ہیں۔
پھر پیر کے روز 24 جنوری 2020 کو پاکستان کی صحافت میں ایک نام رکھنے والے کرائم رپورٹر حسنین شاہ کو لاہور پریس کلب کے پاس سرعام گولیاں مار کر موت کی نیند سلا دیا گیا اور ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی سیف سٹی کے کیمروں کے ناکارہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے کیوں کہ حسنین شاہ کے مجرم جب گولیاں برسا کر جس راستے سے گئے وہاں کے سیف سٹی کے کیمرے ہی خراب پائے گئے جو فوٹیج مجرموں کی حاصل ہوئی وہ پریس کلب کے کیمروں کی تھی۔
لاہور سے سٹی اتھارٹی کے تقریباً 8 ہزار کیمرے جگہ جگہ میں نصب ہے جس میں سے ذرائع کے مطابق 3600 کیمروں کے خراب ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ سیف سٹی حکام نے کہا ہے سیف سٹی کے 1800 سے 2000 کیمرے خراب ہے اور خراب اور غیر فعال کیمروں کو جلد ٹھیک کرایا جائے گا اور سیف سٹی حکام نے باقی لوگوں کی طرح اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیا ان کا کہنا تھا کہ خراب کیمروں کی شکایت ہم پنجاب کابینہ کو کر چکے ہیں۔
مگر بات یہاں پر یہ آتی ہے جن کو لاہور میں کوڑے کے ڈھیر خراب سڑکیں زمینی معاملات نظر نہیں آتے تو ان کو اوپر لگے ہوئے کیمروں کے ٹھیک ہونے کا کیسے پتہ ہوگا میں سمجھتی ہوں ایک مہینے میں لاہور میں ہونے والے حادثات پنجاب حکومت کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں تو وزیراعلیٰ پنجاب ہاتھ جھاڑیں اور گھر جا کر آرام کیجئے آپ سے نہ ہو پائے گا آپ کے بس کی بات نہیں یہی بتا دیں کہ ان حادثات میں قیمتی جانوں کے زیاں اور زخمی لوگوں کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟

تبصرے بند ہیں.