رزق نہیں رازق کو تلاش کرو

111

آج کل آپ جس سے بھی ملیں اس کی زبان پر ایک ہی شکوہ ہوگا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ہمارے اخراجات پورے نہیں ہوتے ، ہمارے پاس کوئی فالتو رقم نہیں ہوتی بلکہ جو ہوتی ہے اس میں سے گزارا کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے محمود وایاز اور امیر و غریب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے، کیونکہ اب یہاں نہ کوئی بندہ ہے نہ بندا نواز بس سارے مہنگائی کے ہاتھوں بکرے بنے ہوئے ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پہلے ہمارے پاس ذرائع آمدنی بہت کم تھے ایک بندہ کماتا تھا بیس بیس لوگ پلتے تھے تو آخر اس کی کیا وجہ تھی؟
جب بھی ہم کسی کو دعا کے لیے کہتے ہیں تو اس میں سب سے پہلی یہی دعا کرائی جاتی ہے کہ ہمارے لیے رزق میں اضافے کی دعا کریں۔ لیکن ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ آخر رزق ہے کیا؟
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ
صرف پیسے کا ہونا ہی "رزق” نہیں ہے
نیک اولاد اچھا اخلاق مخلص دوست وفادار شریک حیات بھی بہترین "رزق” میں شامل ہیں۔
میں نے اس بات پربہت غور کیا تو مجھے کچھ باتیں سمجھ میں آئیں جو میں نے سوچا آپ سے ہی شئیر کی جانی چاہئیں۔
ہمارا اس وقت سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہمیں نہ تو رزق کی پہچان ہے اور نہ ہی رازق کی۔ انگنت نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے اس نے ہمیں ، بس کسی ایک چیز میں ذرا سی کمی ہوجائے تو ہماری زبان شکوے شکایتوں کے انبار لگا دیتی ہے۔ لیکن کبھی ہم نے اس کی دی گئی کروڑہا نعمتوں کو کبھی شمار نہیں کیا۔ ان میں سے کئی نعمتیں اور رزق کی صورتیں تو ایسی ہیں کہ جب تک ہم سے وہ چھن نہ جائیں ہمیں اندازہ تک نہیں ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ان سے نواز رکھا ہے۔ رزق کی پہچان کیے بغیر ہم اپنے رازق کو نہیں پہچان سکتے۔
ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم دولت کی کثرت کو ہی برکت اور رزق سمجھ لیتے ہیں اگر ایسی بات ہوتی تو سارے امیر بہت زیادہ خوش اور مطمئن ہوتے۔ یاد رکھیں کہ برکت کا مطلب کثرت نہیں بلکہ ضرورت کے لیے کافی ہوجانا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے اردگرد کئی ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ہم سے بہت کم وسائل ہوتے ہیں اوروہ پھر بھی ہم سے زیادہ مطمئن اور خوش ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک متقی بندہ مجھے سول عدالت کے باہر نظر آیا وہ آدمی وہاں سنگھاڑے بیچ رہا تھا اس سے ایک پائو سنگھاڑے لیے تو ستر روپے بل بنا میں نے اس کو کہا کہ تیس روپے آپ رکھ لیں اس پر وہ ناراض ہوگیا اور بولا میں کیوں تیس روپے رکھوں میری اجرت تو ستر روپے ہے میں اس کی خودداری دیکھ کر بہت حیران ہوئی اور پوچھا کہ آپ اس ریڑھی سے کتنا کما لیتے ہیں وہ بولا کہ میں روزانہ کے آٹھ نو سو کما لیتا ہوں اور اس میں میرا بہت اچھا گزارا ہوجاتا ہے۔ اس نے جب یہ کہا کہ اللہ کا مجھ پر بہت کرم ہے دونوں ہاتھ پائوں سلامت ہیں روزانہ دو وقت کی روٹی خود کماتا ہوں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتا ہوں تو اس کے شکر اور توکل کی یہ کیفیت دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہوگئی کیونکہ مجھے اپنا آپ اس ریڑھی والے کے مقابلے میں بہت کمتر لگ رہا تھا۔ اس سے ہزار گنا اچھے لائف سٹائل ، ائیر کنڈیشنڈ گھر ، گاڑی اور اس سے سو گنا زیادہ کمانے کے باوجود ہماری زبان پر ہر وقت ایک شکوہ رہتا ہے، حاصل کے انبار میں رہتے ہوئے ہر وقت لاحاصل کی ناشکری کرنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے بلکہ دور حاضر کی سب سے بڑی بیماری ہی ناشکری ہے جس کی وجہ سے ہمارے گھروں اور رزق سے برکت ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہر بندہ روتا رہتا ہے۔
رزق کا کم یا زیادہ ہونا خالص اللہ کے اختیار میں ہے
زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے، جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔‘‘ (ھود:06)
رزق میں برکت حاصل کرنے کا طریقہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بتایا کہ
’’ اپنے گھروں کو تلاوت ِ قرآن سے منور کرو اور انھیں قبر نہ بنائوجس طرح سے یہود و نصاریٰ (یہودی اور عیسائی لوگ)کیا کرتے تھے کہ اپنے کلیسا اور گرجا گھروں میں تو عبادت کرتے تھے اور گھروں کو معطل رکھتے تھے۔ جس گھر میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے تو اس گھر کی برکت میں اضافہ ہو تا ہے اور اس کے اہل میں فراخی ہوتی ہے اور وہ گھر آسمان والوں کے لئے یوں ہی چمکتا ہے جس طرح دنیا والوں کے لئے آسمان کے ستارے)
۲۔ قرآن کی تلاوت ذکر کے ساتھ ایک اور اہم چیز جس سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے وہ ہے اللہ کا شکر ادا کرنا اور اس کے لیے کوئی وجہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے بلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ ہم تو گناہوں سے آلودہ ہیں جبکہ اس کا فضل ہر وقت ہمارے عیب چھپاتا رہتا ہے۔
ایک اورمقام پر تقویٰ اورپر ہیز گاری کووسعت رز ق کامعیار بتایا ہے ،ارشاد ہوتاہے :
یعنی اگرروئے زمین کے لوگ ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کرلیں توہم آسمان و زمین کی برکتیں ان کے لیے کھول دیں۔ ( اعراف / 96)
اگر ہم رزق اور رازق کی حقیقت کو سمجھ لیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں، نہ کسی سے حسد ہوگا نہ زیادہ مشقت کرنا ہوگی، نہ غلط راستوں کو اختیار کرنا پڑے گا۔
یاد رکھیں حقیقی رزق تلاش کرنے والے کی نگاہ مال و دولت کے بجائے ہمیشہ رازق کی شان ربوبیت پر رہتی ہے۔ وہ رزق حاصل کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے بجائے توکل، تقوی، توبہ استغفار، استقامت، محنت، صلہ رحمی اور نظم وضبط کے ابدی اصولوں کو اپنا کر برکتوں بھرا رزق حاصل کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.