اگر مجھے نکالا۔۔۔!

50

ویسے تو یہ وزیراعظم سے عوام کے براہ راست سوال و جواب کا سلسلہ تھا۔جس میں عوام سے ایسے طرز گفتگو کی کوئی وجہ تھی نہ ضرورت۔نہ ہی معاشی حالات سے رنجیدہ عوام کو اپنے مزید خطرناک ہونے کی اطلاع دینا ضروری تھا۔ہاں،دھمکی نما یہ پیغام سیاستدانوں کے لیے ہو سکتا ہے یا ان کے لیے سوچا جا سکتا ہے جن کو ایسی باتوں کی عادت ہے نہ پروا۔البتہ یہ پیغام صرف ان کے لیے ہے جو عمران خان کو حکومت میں لائے اور جو نکال بھی سکتے ہیں۔وہ جو بھی ہیں، عوام اور سیاستدان بہرحال نہیں ہیں۔جو الفاظ عمران خان کے منہ سے ادا ہوئے۔وہ کوئی طاقتور سے طاقتور وزیراعظم بھی ادا نہیں کر سکتا۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب پاکستانی پارلیمنٹ میں طاقتور وزیراعظم بننا ہی بند ہو گئے ہیں۔البتہ عمران خان کو’’اچھی طرح‘‘ جاننے والے سب دشمن بلکہ دوست بھی جانتے ہیں کہ ایسا بیان صرف عمران خان ہی دے سکتاہے۔پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ اس تحریر میں ’’وزیر اعظم‘‘ کے عہدے اور عمران خان کی شخصیت کو الگ الگ پرکھنے کی کوشش کیجیے۔ بلاشبہ عمران خان گفتار کے وہ غازی ہیں جو بولنے سے پہلے تولنے ، پرکھنے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔کنٹینر سے پہلے پھر بھی میڈیا کی چار دیواری اور کیمرے کی حدود میں رہتے تھے۔لیکن ڈی چوک نے عادت اور لہجہ ایسا بگاڑا، کہ اب وہ ہر پلیٹ فارم کو کنٹینر ہی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ وزیر اعظم کے عہدے کے تقاضے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔وہاں حکمران والی زبان اور اختیار والا لہجہ تو مل جاتا ہے لیکن حدود وقیود کے ساتھ۔آج کل اپنے زور بازو پر جب ’’وزیراعظم‘‘ بننا آسان نہیں تو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر ایسا لہجہ اختیار کرنا آسان کیسے ہو سکتاہے۔
خود بھی اعتراف کر چکے کہ حکومت سے باہر پہلے معاشی نظام کا اندازہ نہیں تھا۔ہمیں حکومت کا تجربہ نہیں تھا۔پہلے انھیں اس بات اندازہ بھی نہیں تھا کہ کسی وزیراعظم کو آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیکنا پڑتے ہیں۔اور آئی ایم ایف کے کہنے پر اپنی اور عوام کی عزت نفس کے ساتھ ساتھ اور کیا کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔اب تو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ حد درجہ مہنگائی کی وجہ آئی ایم ایف کے قرضے اور اس کا سود ہوتے ہیں، حاکم وقت نہیں۔پتہ نہیں،اس بات کا اندازہ کیوں نہیں ہوا کہ اگر کرپشن اور ٹیکس چوری کا ذمے دار پہلے وزیراعظم ہوتا تھا تو اب بھی وزیراعظم ہی کو ہونا چاہیئے۔یعنی ماضی میں عوام یا مافیاز سے ٹیکس نہ لینے والا حکمران کرپٹ ہوتا تھا تو موجودہ حکمران صادق اور امین کیسے ہو سکتا ہے۔پہلے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ شہباز شریف سے بڑا ڈاکو پرویز الٰہی،چپڑاسی کی نوکری کے لیے بھی نا اہل شیخ رشید اور نا پسندیدہ تنظم ایم کیو ایم کے رہنما حکومت سازی کے لیے کتنے اہم ہیں۔جی ڈی اے اور جنوبی پنجاب محاذ جیسے ناموں کے پیچھے روایتی وڈیروں کے جتھے اور صنعتی مافیاز ایک ’’جمہوری حکومت‘‘ بنانے کے لیے کتنے ضروری ہیں-کم خطرناک عمران خان ابتدائے سیاست میں،قومی لائبریری میں حکومت اور فوج کی الگ الگ کتابیں ہونے پر زور دیا کرتا تھا۔اب ان کے ایک’’پیج‘‘ پر ہونے کا جشن مناتاہے۔اتنا سب کچھ سمجھنے کے بعد بھی ملک کا خطرناک وزیراعظم 75 سالہ ملک کی تباہ حالی کے محض 35 برس کا ذکر کیوں کرتاہے۔جب تک میڈیا نے کسی کی ’’ہدایت‘‘ پر چپ سادھے رکھی تو دوست تھا ۔ اب خامیوں پر ڈھول بجا رہا ہے تو زہر لگ رہا ہے۔اب من پسند صحافیوں کے علاوہ باقیوں کا گلا دبانے کے حربے سوچے جارہے ہیں۔جن لٹیروں کو اندر کرناتھا،وہ سب کھلے پھر رہے ہیں۔کچھ پارلیمنٹ کے اندر،باقی ملک سے باہر۔ان سے لٹی ہوئی دولت تو نہ ملی،قوم سے پیسہ پیسہ وصول کر لیا۔
یہ محض چند حوالے ہیں۔ورنہ گذشتہ تین سال میں کیا کیا کھل کر سامنے نہیں آیا۔جو خواب دکھائے اور دعوے کیے گئے وہ بھیانک راز کی طرح افشا ہو چکے ہیں۔پھر بھی یہ کہنا کہ مجھے حکومت سے نکالا گیا تو پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔اپنے دفتر میں بیٹھ کر عمران خان جو تماشے دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے انھیں یہ اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ اب سڑکوں پر نکلنے والی دھمکی بھی نہیں چلے گی۔پہلے آپ کو آزمایا نہیں گیا تھا۔ انتخابی مہم میں ایسی باتیں اچھی لگتی ہیں لیکن جس حکمران کی ہوا نکل گئی ہو،معاشی پالیسی ٹھس ہو گئی ہو۔اس کی ایسی دھمکی خود اس کے لیے مضر صحت ہو گی۔ایسے موقع پرجب جھوٹے دعووں کی قلعی کھل جائے، جب دیرینہ ساتھی کشتی ڈوبنے سے پہلے چھلانگیں مار جائیں۔جب وزیراعظم ’’بنانے‘‘والے سارے پرزے ’’کھوچل‘‘ہوجائیں تو سڑکوں پر نکلنے کے بجائے اپنے لیے محفوظ مقام تلاش کرنا چاہئیے۔
یہ سوچنا فضول ہے کہ عمران خان مہنگائی سے نیند متاثر ہونے کی وجہ سے ایسا کہہ گئے۔ان کے اپنے ، پرائے بلکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کسی بھی حالت اور کیفیت میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کسی بھی کیفیت میں دیے گئے بیان کے مابعد اثرات سے آگاہ بھی ہیں یا نہیں۔یا ذومعنی جملوں میں لپٹا یہ پیغام واقعی وہ درست مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں۔یہ قابل رحم حالت ہے۔تحریک انصاف کے انتہائی قرہبی ساتھی پہلے ہی چھوڑ چکے۔اب جو ان کی ترجمانی کرتے پھر رہے ہیں وہ سیاست کی غلام گردشوں میں کئی برسوں سے ایسے ہی پھر رہے ہیں۔کچھ بعید نہیں کہ یہ سب اگلے وزیر اعظم کے ترجمان اور مشیر بھی ہوں۔کیونکہ یہ سب ایک ہی دروازے سے داخل ہونے والے اسی گھر کے مہمان ہیں جسے سب ہدف تنقید بھی بناتے ہیں اور اس کا مہمان ہونا اعزاز بھی سمجھتے ہیں۔
حکومت سے نکالنے والوں نے اس پیغام پر کان دھرے یا نہیں لیکن خطرناک عمران خان کو یہ بات ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ انسانی تاریخ بڑے بڑے خطرناک ’’طرم خانوں‘‘ سے بھری پڑی ہے۔کچھ خطرناک لو سیاسی پناہ کے بہانے دوسرے ملکوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور کئی خطرناک بے چارے، خاک بن کر قبرستانوں کی رونق بن گئے۔رب العزت سے دعا ہے کہ وہ زمین پر رہنے والے خطرناک لوگوں کو ہدایت اور قبروں میں بسنے والوں کو مغفرت عطا کرے۔آمین۔ثم آمین ۔

تبصرے بند ہیں.