حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک…!

106

وزیراعظم جناب عمران خان نے اتوار کو آپکا وزیراعظم ، آپکے ساتھ پروگرام میں شہریوں کی کالز کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اور اپنے خطرناک ہونے کی جو دھمکی دی ہے وہ اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گئی ہے ۔اس بارے میں سوشل اور ریگولر پرنٹ و الیکٹرناک میڈیا میں ہی نہیں بلکہ عوام کے مختلف طبقات میں بھی بحث و مباحثے اور خیال آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ جناب وزیر اعظم نے بظاہر اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر میں حکومت سے نکل گیا تو اس سے زیادہ خطرناک ہوجاونگا ۔ سڑکو ں پر آیا تو اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اپوزیشن کے لوگ این آرا و کے متلاشی ہیں۔ انکے مطالبات پورے نہیں ہورہے ، وہ مجھے پارلیمنٹ میں بات کرنے نہیں دیتے ہیں۔ میں اپوزیشن کے احتساب کو جہاد سمجھتا ہوں۔ کوئی این آرا ودوں گانہ ہی اپوزیشن سے مفاہت کرونگا ۔
جناب وزیر اعظم نے پروگرام آپکا وزیر اعظم آپکے ساتھ میں جو کچھ کہا ہے اس میں خطرناک ہونے والی دھمکی کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نئی ہو۔ جناب وزیر اعظم اور حکومت میں شامل انکی پارٹی کے اہم راہنما اپوزیشن راہنماوں کے لتے لینے ، انہیں چور ، ڈاکو، لیٹرے، بدعنوان ، قومی دولت لوٹنے کے مجرم اور این آر او کے متلاشی وغیرہ کہنے کا سلسلہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی جاری ہی نہیں رکھے ہوئے ہیںبلکہ پارلیمنٹ میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جب اپوزیشن کی تضحیک کرنے اور اپوزیشن راہنماوں کو اپنی الزا م تراشیوں کا نشانہ بنانے سے گریز کیا ہو۔ اسی طرح اپوزیشن بھی جناب عمران خان کو سلیکٹڈوزیر اعظم کہہ کر پکارنے ،انکی حکومت کی کارکردگی کو صفر قرار دینے، انکے حکومتی ساتھیوں کی نااہلی ، نالائقی اور بد انتظامی کا رونا رونے ،گڈگورنس کے فقدان ، معیشت کی زبوں حالی اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی بنا پر عوام کی مشکلات اور کمر توڑ مہنگائی میں اضافے جیسے معاملات پر ہمیشہ سے جنا ب عمران خان کی حکومت کو اپنی سخت اورتلخ و ترش باتوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس کے ساتھ پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن ارکان کا وزیراعظم سمیت حکومتی راہنماوںکی تقاریر میں دخل دینے ، شور شرابہ کرنے اور بعض صورتوں میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس سے واک آوٹ کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا آرہا ہے ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ برسراقتدار جماعت تحریک انصاف کے حکومتی عہد
یدار اور راہنما ہوں یا اپوزیشن جماعتوں کے اہم راہنما ہو ں ۔بلاتفریق پچھلے ساڑھے تین برسوں سے اپنے اپنے دائرے میں اپنے لیے مختص کردہ ایک دوسرے کی مخالفت کے فرائض اور وظائف بڑی تن دہی سے سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اسکے باوجود اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جناب وزیر اعظم کویہ دھمکی دینی پڑی ہو کہ میں اگر حکومت سے نکلا تو خطرناک ہوجائونگا یا سڑکوں پر آیا تو اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو سامنے رکھ کر دیکھنا ہو گا کہ آخر جناب وزیر اعظم نے یہ لب ولہجہ کیوں اختیار کیا ہے ، انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ دھمکیوں پر اتر آئے ہیں ؟ یقینا یہ ایسا سوال ہے جو سوشل اور ریگولر میڈیا پر ہی نہیں بلکہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں بھی زیر بحث ہے۔ دانشور ،سیاسی مبصر، تجزیہ نگار اور باخبر وقائع نگار اپنے اپنے اندازوں، اپنی اپنی معلومات اور اپنے اپنے ذرائع کے مطابق اسکا جواب ڈھونڈنے کی سعی کررہے ہیں ۔ کچھ اشاروں کنایوں میں اور کچھ کھلے لفظوں میں جواب کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ان سب سے ایک بات تو تقریباً واضح ہے کہ جناب وزیر اعظم کی خطرناک ہونے کی دھمکی خالی ازعلت نہیں۔شاید انہیں اس بات کا گمان ہی نہیں بلکہ یقین ہوچلا ہے کہ پانچ سال کی آئینی معیاد مکمل ہونے سے قبل انکی حکومت کو ختم کرنے یا انکو حکومت سے نکالنے کی کہیں نہ کہیں منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ اس لیے انہوں نے خبردار کرنا ضروری سمجھا کہ حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہونگا۔اب اس بات کا جواب کہ منصوبہ بندی کہا ں ہوری ہے اس کے حوالے سے بھی کچھ ایسے ٹھوس مفروضے یا افواہیں سامنے آتی رہتی ہیں جنکے حقیقت کا روپ دھارنے کے برابر کے مواقع موجود ہیں ۔
جناب وزیر اعظم کچھ ہفتے قبل خود یہ کہہ چکے ہیں کہ انکی حکومت کیلئے اگلے تین ماہ کاعرصہ مشکل کا ہے اور اپنے پارٹی راہنماوں کو یہ ہدایت بھی کرچکے ہیں کہ وہ ملک میں ہی موجود رہیں۔ اس کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ جناب عمران خان کو اس بات کا خدشہ ہے کہ قومی اسمبلی میں انکی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوسکتی ہے یا انکی پارٹی کے اندر سے ہی انکووزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کی کوئی کوشش Move ہوسکتی ہے۔دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں جو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر توایک لحاظ سے کب سے یکسوچلی آرہی ہیں لیکن اس کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کیاجائے ، اس بارے میں باہمی عدم اتفاق کا شکار رہی ہیں۔ اب لگتاہے کہ ان میں بھی اس حوالے سے یکسوئی اور اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے ۔اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہو،دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہو یا تیسری بڑی جماعت مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلا م ہو وہ اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے دونوں آپشنز کو مناسب وقت پر بروئے کار لانے پر متفق ہوچکی ہیں۔یقینا یہ صورتحال جناب وزیر اعظم کیلئے تشویش کا باعت ہوسکتی ہے۔تاہم ماضی میں بھی جناب وزیر اعظم کو بھی اسطرح کے خدشات لاحق رہے ہیں لیکن انہیں اسطرح کی دھمکیاں دینے کی کبھی بھی ضرورت نہیں پڑی ۔ اب اگر وہ حکومت سے نکالے جانے کی صورت میں خطرناک ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس اسکاکوئی بڑا جواز ہوگا ۔
جناب وزیر اعظم کے پاس خطرناک ہونے کی دھمکی کا کیا جواز ہوسکتا ہے اسکاجواب بھی سامنے آرہا ہے کہ جناب وزیر اعظم کواس بات کا گمان بلکہ یقین ہوتا جارہاہے کہ مقتدر ریاستی ادارے انکی حمایت سے دست کش ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ وہ جو سب سے اہم اور مقتدر ریاستی ادارے کا دست شفقت انکے سر پر سایہ فگن تھا ا ب شاید انکے سرپر سے ہٹ چکاہے ۔ اسطرح وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن اب انکے خلاف کوئی عد م اعتماد کی تحریک لاتی ہے یا انکی حکومت کو ختم کرنے کیلئے کوئی اور طریقہ کار اپناتی ہے تو اس کا انہیں اکیلے ہی مقابلہ کرنا پڑے گااور اس صورت میں یہ یقینی بات ہے کہ انکی حکومت کا خاتمہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی قرین قیاس سمجھتی جاسکتی ہے کہ برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف میں بھی کوئی ایسی کوشش ہوسکتی ہے کہ جو وزیر اعظم جناب عمران خان کے خلاف بغاوت کاروپ دھار لے ۔ان تمام خدشات اور امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ضروری سمجھا ہے کہ وہ متعلقہ حلقوں کو یہ دھمکی آمیزپیغام پہنچائیں کہ انکو حکومت سے نکالاگیا تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہونگے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے جا نہیں ہو گا کہ میڈیا کے بعض حلقوں میں یہ کچھ عرصہ سے اسطرح کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہی ہیںکہ جناب عمران خان نے کچھ اسطرح کی منصوبہ بندی کررکھی ہے کہ وہ عوام کے سامنے ایک مظلوم کے روپ میں جانا چاہتے ہیں۔ جنہیں پوری طرح اپنے وعدوں اور نعروں پر عمل کرنے نہیں دیاگیاور نہ ہی انہیں آزادانہ ڈیلورکرنے دیاگیا۔مقتدر حلقوں نے قدم قدم پر انکے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کیے رکھیں۔

تبصرے بند ہیں.