ایک اور صحافی لاہور پریس کلب کے سامنے ہلاک کر دیا گیا۔ معروف اور مصروف مقام پر دن دیہاڑے ہونے والی اس واردات نے یہ بات ثابت کر دی کہ لاہور جو پنجاب کا دارلحکومت ہے وہاں امن و امان کی صورتحال کتنی تسلی بخش ہے۔ لاہور پریس کلب سے چند گز کے فاصلے پر امریکی قونصل خانے اور اس سے تھوڑا سا آگے لاٹ صاحب کا دفتر یعنی گورنر ہاؤس ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے کرائم رپورٹر حسنین شاہ کے سینے میں دس گولیاں اتار دی گئیں اور نامعلوم قاتل خاموشی سے نکلتے بنے۔ سیف سٹی کے کیمرے جو دن رات لوگوں کو ٹریفک چالان بھیج رہے تھے وہ بالکل صاف ہیں، دو ملزمان کو گرفتار کرنے کی اطلاع دی گئی ہے۔ اسی شہر میں ایک رکن اسمبلی پر چند روز پہلے قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صحافی کو دن دہاڑے قتل کے واقعہ کی مذمت کی ہے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی تک یہ بھی علم نہیں ہو سکا کہ اس قتل کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا یہ سارا کھیل کسی ذاتی عداوت کا نتیجہ تھا، دہشت گردی تھی یا جرائم پیشہ افراد نے ایک صحافی کو پریس کلب کے سامنے گولیاں مار کر صحافیوں کو کوئی پیغام پہنچایا ہے۔
پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ترین ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف جرائم پیشہ اور دہشت گرد گروہ اور تنظیمیں صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور دوسری طرف ریاستی ادارے صحافیوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کئی صحافیوں کو ریاستی اداروں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانے پر پابند سلاسل کیا گیا ان پر مقدمات چلائے گئے اور کئی صحافیوں کو اغوا کر لیا گیا۔ ہر طرف سے ایک ہی پیغام آتا ہے کہ چپ سادھ لیں۔ ورنہ اپنے انجام کے لیے تیار رہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسنٹس نے 2021 میں جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں پاکستان کی رینکنگ قدرے بہتر ہوئی تھی تاہم پاکستان کو اب بھی ان ممالک میں سرفہرست رکھا گیا ہے جہاں پر صحافی محفوظ نہیں ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دینا تو معمول کی ایک کاروائی سمجھی جاتی ہے۔ اس
کے بعد انہیں اغوا کیا جاتا ہے یا بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے اور جو اپنے آپ کو بہت زیادہ بااثر سمجھتے ہیں وہ قتل کرنے میں ایک پل کی دیر نہیں کرتے۔ یہ سارا کام وہ اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ ریاست اور اس کے ادارے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن وہ دنیا کو سبق سکھائیں گے کہ کوئی ان کے خلاف آواز بلند نہ کرے۔ کیا ہم نے چند دن پہلے یہی مظاہرہ سندھ میں نہیں دیکھا جہاں ایک صحافی کو گھر سے بلا کر قتل کر دیا گیا اور قاتل کو سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔
یہ وہ ملک ہے جہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی سرکاری اہلکار اپنے اقتدار کے مزے میں دھت کوئی بھی آئین اور قانون سے ماورا کاروائی کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ دو سال پہلے ہم لاہور کے نوجوان صحافی اظہار الحق کی ضمانت کروانے کے لیے مختلف عدالتوں کے چکر کاٹ رہے تھے۔ انہیں پیکا ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ریاستی اداروں کی توہین کی ہے اور ریاست مدینہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود ایک ترانے کو شئیر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نے یہ ترانہ بنایا اور جاری کیا اسے کسی نے نہیں پوچھا مگر اظہارالحق کو گرفتار کر لیا گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر جنرل پرویز مشرف کو ضمانت پر رہا کرنے پر شدید تنقید کی تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دنیا کی تمام انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں نے نہ صرف اس گرفتاری کی مذمت کی بلکہ انہیں رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ صرف ایک اظہار الحق نہیں پاکستان میں کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور وہ ابھی بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، بعض کو عدالتوں نے الزامات سے بری بھی کر دیا ہے۔
یہ وہ ملک ہے جہاں آزادی اظہار رائے بہت مشکل یے۔ اداروں اور حکمرانوں کی تعریف کرتے رہیں تو سب اچھا ہے لیکن ان پر تنقید کو برداشت کرنے کی روائت یہاں موجود نہیں ہے۔ پھر آپ کا انجام حسنین شاہ یا اظہار الحق کی صورت میں نکلے گا۔ حال ہی میں حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ہے جس کا خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی بے شمار سقم ہیں۔ یہ قانون سازی کیا کسی صحافی کو قتل ہونے سے بچا سکے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ قانون کس طرح حرکت میں آتا ہے اور قاتلوں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ مقتولین کی کیا دادرسی کرتا ہے۔
پاکستان میں صحافت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ایک طرف ان کے روزگار کا کوئی تحفظ موجود نہیں ہے اور دوسری طرف معاشرے میں موجود وہ عناصر جو خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں وہ ان کے سر ہو لیتے ہیں۔ اداروں نے ان کی کارکردگی کے بارے سوال ہو تو وہ برا مان جاتے ہیں اور حکومت پر تنقید کی جائے تو سوشل میڈیا پر گالم بلوچ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ صحافی جو بھی لکھتا ہے وہ کسی کے حق میں ہوتا اور کسی کی مخالفت میں۔ جس کے حق میں بات جا رہی ہو وہ پوچھتا بھی نہیں لیکن جس کے خلاف بات کی جائے وہ اسے ذاتی جنگ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
اس ملک میں آزادی اظہار رائے نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ آئین میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ جب چاہیں آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹ دیں۔ آپ اخبارات کے ڈیکلریشن کی بات ہی لے لیں اسے حق سمجھنے کے بجائے طرح طرح کی قدغنیں لگا دی گئی ہیں۔ کسی بھی ادارے کو آپ تھوڑا سا بھی اختیار دیں باقی کا اختیار وہ اپنی من مانی تشریح سے حاصل کر لیں گے۔
صحافیوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کی کوئی تدبیر آج تک سامنے نہیں آئی۔ بہت سے میڈیا ہاؤسز بیگار کیمپوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کے مالکان معاشرے میں معزز بن کر گھومتے ہیں۔ حسنین شاہ تو گولیاں کھا کر اگلے جہاں چلا گیا، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے اس کی مغفرت فرمائے اور اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ باقی لوگوں کے لیے بھی اسباب پیدا کرے کہ یہ وہ طبقہ ہے جسے زمینی خدا کچلنے کے لیے ہر دم تیار ہیں اور ان کا قصور فقط اتنا کے کہ وہ سوال کرتے ہیں اور ان کے ناجائز احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں حسنین شاہ کی طرح گولی کا نشانہ بنتے ہیں یا اظہارالحق کی طرح گرفتار ہو کر جیل چلے جاتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.