افغان بحران اور عالمی برادری کی بے حسی

38

اس دنیا کا نظام ،قانون اور دستور یہی ہے کہ اگر آپ محکوم ،کمزور اور غلام ہیں تو پھر آپ کے کوئی حقوق نہیں ۔آپ کو کتنے ہی مظالم اور تکالیف کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ ،ریاست ،حکومت ، انسانی حقوق کی تنظیم یا فردآپ کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا۔افغانستان کی ریاست اور عوام کو بھی اس وقت اس صورت حال کا سامنا ہے ۔ گزشتہ پانچ مہینوں سے افغانستان کی عوام کو موسم کی  شدت،بھوک اور پیاس کا سامنا ہے ،لیکن نام نہاد مہذب اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ان پر پابندیاں لگا دی ہیں ۔گزشتہ پانچ مہینوں سے افغانستان کے عوام سے مہذب دنیا کے ٹھیکیداروں نے جینے کا حق چھین لیا ہے ۔افغانستان اس وقت ایک بڑے انسانی المیے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بیس سال تک امریکا اور اس کے اتحادی بموں اور بارود سے نہتے افغانوں کو مارتے رہے اور اب یہی امریکی سامراج ان کو بھوک اور پیاس سے مار رہی ہے ۔ایک طرف اگر امریکا اور ان کے نام نہاد مہذب اتحادی بے حسی کا مظاہر ہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف نئے حکمرانوں کی حکمت سے خالی پالیسیاں افغانستان کی عوام کے لئے درد سر بنی ہو ئی ہیں ۔اس وقت افغانستان میں عوام کی اکثریت ایک وقت کی روٹی کے لئے ترس رہی ہے جبکہ ان کے حکمران اس بحث میں الجھے ہو ئے ہیںکہ عورت کو محرم کے بغیر باہر نکلنا چاہئے کہ نہیں ؟عوام کو تن ڈھانپنے کے لئے کپڑوں کی ضرورت ہے جبکہ ان کے حکمرانوں کو اس بات سے فرصت نہیں کہ گانا حرام ہے کہ حلال ؟عوام کی اکثریت چھت سے محروم ہے ۔ شدید سردی کے اس موسم میں وہ خیموں میں اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ان کے حکمران اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ لڑکیوں کو سکول جانے دیا جائے کہ نہیں ؟عوام کی اکثریت روزگار کے لئے ترس رہی ہے جبکہ ان کے حکمرانوں کا سارا زور اس بات پر ہے کہ جو آواز ان کے خلاف بلند ہو رہی ہے اس کو خاموش کیسے کیا جائے ؟اس وقت افغانستان کی عوام کے لئے طالبان کی پالیسیاں درد سر بنی ہوئی ہیں ۔زمینی حقائق سے نابلد اور حکمت سے خالی نئے حکمران ابھی تک
عالمی طاقت کو شکست دینے کے جشن سے فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ پانچ مہینے گزرنے کے باوجود افغانستان میں عوام شدیدترین مسائل کا شکار کیوں ہیں ؟ افغانستان کی عوام پر اگرچہ ایک طرف اپنے حکمران ظلم ڈھا رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی برادری بھی ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے ۔ امریکا نے پوری دنیا کے ساتھ ان کے کاروبار پر پابندی لگا دی ہے ۔ ان کے بینک اکائونٹس منجمد کئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یورپ اور برطانیہ نے بھی افغانستان میں اس بڑے انسانی المیے پر آنکھیں بند کی ہیں ۔اقوام متحدہ کو اس موقع پر کردار ادا کرنا چاہئے لیکن وہ بھی امریکا کی گھر کی لونڈی بن چکی ہے ۔ اقوام متحدہ کے عہدے دار آئے روز بیانات جاری کرتے ہیں کہ افغانستان ایک بڑے انسانی المیے کا شکار ہے لیکن وہ اس مسئلے کے حل کے لئے عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔افغانستان کو اس وقت بڑے پیمانے پر خوراک اور پینے کے صاف پانی کی ضرورت ہے تاکہ وہاں انسانوں کو بھوک اور پیاس سے بچایا جا سکے لیکن مہذب عالمی برادری ابھی تک یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہے کہ اجناس اورپانی کو افغان عوام میں کس طرح تقسیم کیا جائے ؟ ابھی تک دنیا یہ سوچ رہی ہے کہ جو امداد افغانستان کو دی جائے گی وہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے دی جائے یا افغانستان کی ریاست کے حوالے کی جائے ؟ اگر چہ اب عالمی برادری نے فیصلہ کرلیا ہے کہ افغانستان کو دی جانے والی امداد بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں تقسیم کریں گی لیکن تاحال اس کا طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا اور لگ ایسے رہا ہے کہ یہ طریقہ کاروضع کرنے میں مزید چند ماہ لگیں گے ۔افغانستان کے عوام کو اس وقت بڑے پیمانے پر گرم کپڑوں کی ضرورت ہے لیکن مہذب عالمی برادری نے ابھی تک طے ہی نہیں کیا ہے کہ اگر گرم کپڑے افغانستان بھیجنا پڑے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ افغانستان میں اس وقت عوام کو ادویات کی ضرورت ہے لیکن گلوبل ویلیج کے چودھری امریکا نے پابندی لگا رکھی ہے اس لئے کوئی بھی وہاں ادویات بھیج نہیں سکتا ۔
بلا شبہ افغانستان کی عوام کے لئے اس وقت ان کے حکمران اور امریکا دونوں درد سر بنے ہوئے ہیں ۔جنوری اور فروری کے مہینے افغان عوام کے لئے انتہائی سخت اور تکلیف دہ ہے ۔بہار میں وہ کچھ سکھ کا سانس لیں گے ،لیکن ان کے دلوں میں اپنے نئے حکمرانوں اور امریکا کے خلاف جو جذبات ہیں وہ ایک لاوے کی صورت اختیار کریں گے ۔اگر نئے حکمرانوں اور امریکا نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا تو یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔اس لئے یہی وقت ہے کہ افغانستان کے حکمران اور امریکا دونوں کو اب اپنی پالیسیاں بدلنا ہوں گی ورنہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر دونوں کے پاس افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں بچے گا ۔افغانستان کے پڑوسی ممالک کو بھی اب خاموشی توڑنا ہوگی اگر انھوںنے ایسا نہیں کیا تو پھر اگر یہ آتش فشاں پھٹ گیا تو اس کے اثرات سے وہ بھی محفوظ نہیں ہونگے۔

تبصرے بند ہیں.