نیپلزکی ایک رات

49

اٹلی جانے کا عزم کیا تو اطالوی حسینہ مس روفو پر مولاناظفرعلی خان کی نظم یاد آئی تھی ۔عام طورسے یہ خیال کیاجاتاہے کہ قومی شاعری کے غلبے کے باعث مولاناظفرعلی خان کے ہاں شعری لطافت کا فقدان تھا۔ڈاکٹرسیدعبداللہ نے توان کی شاعری میں غم کے فقدان پر پورا مضمون لکھاتھا لیکن اطالیہ یا مس روفوکاکمال تھاکہ مولاناکے ہاں ایسے اشعار کا ظہورہوا
اے کشورِاطالیہ کے باغ کی بہار
لاہورکا دمن ہے ترے فیض سے چمن
اس نظم میں جہاں مس روفو کی آنکھ کا خمار، پروردئہ فسوں ہے تو اس کی بوئے پیرہن آوردئہ جنوں ۔ساقِ صندلی، پیمانہ نشاط ہے تو مرمریں بدن بیعانہء سرور۔اس کی دل رباادائوں کو پیغمبر جمال اور اس کے چلبلے چلن کو پروردگار عشق قراردیاگیاہے ۔اس اطالوی حسینہ کے بارے میں مولاناکی کلیات میں تین نظمیں ملتی ہیں۔ نظم ’’ہوٹل سسل کی رونق عریاں‘‘میں اس کے مرزبوم اور لاہورسے معنی خیزگم شدگی کا ذکرکرتے ہوئے کہاہے کہ ؎
روما سے ڈھل کے برق کے سانچے میں آئی تھی
اب کس حریم ِناز میں وہ جان جاں گئی
ان اشعار سے اندازہ ہوتاہے کہ اگر دورِطالب علمی میں مولاناشبلی نعمانی نے ظفرعلی خان کو غزل کی شاعری سے نہ روکا ہوتاتو ان کا سلیقہ فطری اس رنگ سخن میں بھی نادرنمونے یادگار چھوڑتا۔
اطالیہ کے سفر کے دوران ہم نیپلزپہنچ چکے تھے۔ نیپلزروم اور میلان کے بعد اٹلی کا تیسرا سب سے بڑاشہرہے جسے پہلی صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے آبادکیا اور روزِاوّل سے اب تک آباد چلاآتاہے یعنی دنیاکے بعض دوسرے تاریخی شہروں کے برعکس کبھی برباد ہوکر ویران نہیں ہوا۔یہ شہر روشن خیالی ،جدیدیت اورمغربی موسیقی کے کلاسیکی مکتب فکر کا مرکز بھی رہاہے ۔اس کی تاریخ پر نظر ڈالی تو معلوم ہواکہ نیپلزکسی زمانے میں ریاست صقلیہ کا ایک حصہ تھابعدازاں جب سلطنت ٹوٹ گئی اور ملک کے حصے بخرے ہوگئے تو الگ ہوکرنیپلزکی ریاست بنا ۔اردو شاعری میں اطالیہ کے نقوش کا ذکرہوتو ممکن نہیں کہ اقبال کی نظم’’ صقلیہ‘‘ زیربحث نہ آئے ۔اقبال نے یہ نظم یورپ سے واپسی پر جولائی ۱۹۰۸ء میں لکھی تھی جی ہاں وہی سفر یورپ جس کی آب و ہوانے انھیں ’’مسلمان‘‘ کردیا۔صقلیہ یاسسلی، اٹلی کے جنوب میں واقع جزیرہ ہے جسے عربوںنے فتح کیااور اس پر ۸۷۸ء سے ۱۰۷۲ء تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔صقلیہ کی تاریخ کا یہ دور تہذیب و تمدن، صنعت وحرفت اور علم وفضل میں کمال کا دور ہے جس کا ذکر اقبال نے اپنی نظم میں کیاہے ان کا کہناہے کہ اہل اسلام نے انسانیت کو توہمات کی زنجیر وںسے آزاد کیا،قدیم یونانی اور رومی ادوار کی کہنگی کو زندگی کے نئے ذائقوں سے آشنا کر کے جہان ِتازہ کی تخلیق کی۔ نظم کا ایک حصہ مسلم اقتدار کے زوال کا مرثیہ ہے جس میں شاعرنے،مسلم کاروان کی منزل بننے والے اس جزیرے کو مخاطب کرکے خود کوفاتحین کے اس قافلے کی گردقراردیاہے ۔دردکی یہ لَے اس وقت شہروں کے مراثی کی تاریخ سے جاملتی ہے جب اقبال، شیرازکی تباہی پر سعدی، غرناطہ کی تباہی پر ابن عبدوں اور دہلی کی بربادی پر داغ کے مرثیوں کا ذکرکرتے ہوئے خودکو صقلیہ کا مرثیہ خوان قراردیتے ہیں ۔ان اشعار سے راقم کی ایک وابستگی یہ ہے کہ زمانہ ء حال میںجب دورجدیدکے ہلاکو نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو راقم الحروف نے ٹیلی ویژن کی لائیو ٹرانسمشن کی میزبانی کرتے ہوئے اقبال کے یہ اشعار پڑھے تھے۔اس نظم کاایک خوبصورت حصہ وہ ہے جس میں اقبال نے’’ صقلیہ‘‘ کوپانی کے صحرامیں کھڑاراہ نمااور سمندرکی آبرو قراردیتے ہوئے دعاکی ہے کہ ؎
زیب تیرے خال سے رخسارِدریاکو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحرپیما کو رہے
ہو سبک چشم مسافر پر تر ا منظر مدام
موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام
ہم نیپلزکے میزبانوں کی گرفت میں جس مستقر پر پہنچے اس کا منظر لاہورمیں اندرون بھاٹی دروازہ یا رنگ محل کے سوہابازار کی اندرونی گلیوں سے بھی زیادہ تنگ تھا۔چھوٹی اینٹوں سے بنی ہوئی بے ترتیب بھدی عمارتیں، ادھرادھر پرنالے، چھتوں کی بدصورتی میں اضافہ کرتی ڈشیں اور اینٹینے۔ بدنمائی میں جوکمی رہ گئی تھی اسے مکینوںکی جانب سے سکھانے کے لیے لٹکائے گئے کپڑے پوراکررہے تھے۔غالباً یہ پوتڑے چوراہوں پر دھلے تھے ۔ہر جانب اُگی ہوئی عمارتوں کے زینے، منزلوں کے اسرار فاش کررہے تھے۔سفر کے باعث طبیعت میں تھکن تھی اور طبیعت اس سے بھی پہلے سے خراب چل رہی تھی اس لیے مجھ پر تو نیند کا غلبہ تھا چنانچہ میں جلد سورہا ۔صبح آنکھ کھلی تو مجھے بالکل یادنہیں تھاکہ میں لاہورمیں ہوں یا اٹلی کے شہر نیپلز میں۔ ویسے بھی رات یہاں پہنچ کر ذہن پر جو اوّلین تاثر نقش ہواتھا، اس نے نیپلزاور لاہورکے پرانے محلوں کا فرق مٹادیاتھا ۔میں نے حذیفہ کی جانب دیکھا۔ وہ ابھی خواب ِخرگوش کے مزے لے رہاتھا ۔رات وہ بھی تھکن محسوس کررہاتھا اس لیے میںنے اسے جگانا مناسب خیال نہ کیااورفرائض سے فراغت کے بعد ہمت مجتمع کرکے روزنامچہ لکھنے بیٹھ گیا۔جتنالکھ سکتاتھا لکھا۔ اب چاہتاتھا کہ اٹھوں اور یونی ورسٹی جانے کی تیاری کروںلیکن ایساکرنادشوارتھا۔اصل
میں ہوتایہ ہے کہ جب گلا خراب ہونا شروع ہوتاہے اور میں ابتداہی میں دوالیتاہوں تو خرابی ازحد بڑھ جاتی ہے۔ اب بھی ایساہی ہورہاتھا ۔طبیعت کااضمحلال بہت بڑھ گیاتھا۔ گلے کی حالت یہ تھی کہ دوجملے اداکرنا بھی دشوارہوچکاتھا ۔میزبان نوجوان ایک ایک کرکے اپنے کاموں پر جانے لگے یہاں تک کہ صرف وہی نوجوان باقی رہ گیا جس نے ہمیں ناشتہ کرانے کی ذمہ داری خودپرعایدکرلی تھی۔تب کہیں جاکرمیںنے حذیفہ کو جگایا۔حذیفہ اٹھااور بعجلت تیارہوگیا۔ تیاری کا اصل مرحلہ تو مجھے درپیش تھا ۔ سفرکی تکان تو الگ ،اصل مقابلہ بخار کی پیداکردہ ناطاقتی سے تھا۔بہ ہر حال جیسے تیسے ہمت مجتمع کرکے اٹھا ۔عمربھرکے معمول کے مطابق آغازِصبح میں غسل کرناچاہتاتھا لیکن ایک جانب تو ناطاقتی اور اضمحلال اور دوسری جانب رات بھر کے پسینے کے باعث طبیعت میں نہانے کی خواہش۔ جب بے در اور تنگ دامن غسل خانہ دیکھا تو مزید حوصلہ شکنی ہوئی اور مجھے ابن انشا یاد آگئے جو اپنے سفرناموں میں غسل خانوں کے حدوداربعہ کے بیان پر کافی زورِقلم صرف کیاکرتے تھے ۔صرف یہی نہیں اپنے کارٹونسٹ سے ان کی تصویریں بھی بنواتے تھے۔ ان تصویروں سے معلوم ہوتاتھا کہ یہ غسل خانے اس اہتمام سے بنائے گئے کہ اونچائی میں قد آدم سے نہ بڑھ پائیں اور نہ ہی ان میں اتنی وسعت ہوکہ نہانے والا غسل خانے میں انگڑائیاں لیتارہے۔بس سیدھا کھڑا ہوکر نہائے اور سیدھی طرح واپس آئے ۔اب اس تجربے سے گزرنا ابن انشاکی یاد کا تقاضابن چکاتھا سوپورا کیا اور حامدکا بنایاہوا ناشتہ کرکے نیپلزیونی ورسٹی جانے کے لیے تیارہوگئے۔

تبصرے بند ہیں.