باتیں بہت

29

ہر روز ہمارے سیاستدان نت نئے دعوے کرتے ہیں۔ بہت باتیں کرتے ہیں۔ شاید یہ روایت ہماری سیاست تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے میں پھیل چکی ہے۔ کوئی ٹی وی ٹاک شو دیکھ لو، کسی محفل میں چلے جاؤ اور بس پھر لوگوں کی باتیں سنتے جاؤ، گویا زندگی کے تمام شعبوں کے افراد باتوں پر لگے ہوئے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں باتیں تو سب کرتے ہیں، مگر کاش ان باتوں پر عمل کرنے والا کوئی تو ہوتا؟ باتوں سے زیادہ ہمیں عمل کی ضرورت ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ پوری قوم ڈاکٹر بنی ہوئی ہے، مگر علاج کسی کے پاس نہیں۔ میری باتوں پر یقین نہ آئے تو آزما لیجئے آپ کسی بھی محفل میں کوئی بھی ایشو چھیڑ دیں اور پھر اس کے بعد دیکھیے کہ کیسے کیسے افلاطون باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ کاش کوئی عمل کرتا۔
آپ ملکی معیشت پر بات شروع کریں، تو آپ کے آس پاس معیشت کے ماہرین بکثرت پائے جائیں گے لیکن ایک لمحے کے لئے رکیے اور سوچئے کہ اگر ہمارے پاس معیشت کے اتنے ماہرین ہوتے تو ہماری معیشت کے ساتھ یہ کھلواڑ ہوتا؟ ہم اس وقت دنیا کے معاشی لحاظ سے طاقتور ترین ملکوں میں شامل ہوتے بلکہ ہمارے ماہرین دنیا کے کئی ملکوں کی معیشت درست کر رہے ہو تے۔ اپنی معیشت سے متعلق غور کیجئے کہ 1951 میں ڈالر ایک روپے کے برابر تھا۔ساٹھ کی دہائی میں ہمارا ملک اتنی تیزی سے ترقی کر رہا تھا کہ پورا ایشیا پیچھے تھا۔ ہم آج کے کئی ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں آگے تھے۔ ہم ترقی کر رہے تھے اور دنیا ہمیں دیکھ رہی تھی۔لوگ ہم سے واقعی سیکھ رہے تھے۔72 میں ڈالر 3 روپے کا ہوگیا۔ 80 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ڈالر 8 روپے کا تھا۔ 80 کی دہائی کے
وسط میں ڈالر 12 سے 14 روپے کا ہوگیا ہوا تھا۔
ڈالر 14 روپے کا تھا تو پھر ہمارے ہاں وہ جمہوریت آگئی جس میں کرپشن تھی،چوری تھی اور بڑے بڑے ڈاکے تھے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کے طفیل ہم مقروض ہوتے گئے۔ ہماری معیشت تباہ ہوتی گئی۔ترقی کا سفر تنزلی میں تبدیل ہوتا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں ڈالر ساٹھ روپے کا تھا۔ ایک مرتبہ پھر جمہوری سفر شروع ہوا۔ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر نون لیگ اور اب تحریک انصاف اقتدار میں ہیں۔ مگر ہماری پچھلی دو حکومتوں نے اتنے قرضے لیے کہ ہماری معیشت ڈوبنے کے قریب ہو گئی۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اس دوران ہمارے دوست ملک ہماری مدد نہ کرتے تو ہمارا برا حال ہوتا۔ خیر ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ ٹیکسوں کا بوجھ پڑا مہنگائی بڑھی اس کے علاوہ شاید ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم سود در سود کے تحت گردشی قرضوں میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔تحریک انصاف کی حکومت پر ہم جتنی چاہے مرضی تنقید کریں پھر بھی آپ کو ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس حکومت نے بہت زیادہ قرض اتارا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قرضہ بھی تو لیا ہے، یہ بھی علاج ہی کا ایک طریقہ ہے کہ آپ نے ملک بھی چلانا ہے اور قرضوں کے دلدل سے بھی نکلنا ہو تو اس کے لئے آپ کو سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جو ڈالر پیپلزپارٹی کی حکومت کو ساٹھ روپے میں ملا تھا، اسی حکومت نے ڈالر کا ریٹ سو روپے تک پہنچا دیا۔ ن لیگ نے سارے مصنوعی طریقے آزما کر بھی ڈالر کا ریٹ ایک سو تیس چالیس تک پہنچا دیا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف یہ کیا کہ روپے کی قدر میں مصنوعی اضافہ نہیں کیا بلکہ جو حقیقت تھی اسے ہی سامنے رکھا۔ جس کے نتیجے میں ڈالر مہنگا ہوگیا۔ آج ڈالرایک سو ستر روپے سے اوپر ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایک حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔حالانکہ اس کے برعکس پچھلی حکومت میں درآمدات میں اضافہ ہوتا رہا۔سینٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور سابق وزیر خزانہ سلیم مانڈوی والا یہ کہتے رہے کہ اسحاق ڈار پر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ دنیا کا واحد وزیر خزانہ ہے جو درآمدات کے بڑھنے میں خوش ہوتا ہے۔۔ ماضی کے کتنے قصے بیان کروں۔ میں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ ملک ترقی کرے لیکن اس ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ بات، باتوں سے آگے بڑھے ،عمل ہو، کیونکہ عمل ہی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں ملک ترقی کر رہا تھا تو کس لیڈر نے 70 کی دہائی کی ابتدا میں نیشنلائزیشن کی پالیسی اپنائی؟ جی ہاں بھٹو نے! یہ وہ لمحہ تھا جو پاکستانی معیشت کی بربادی کا لمحہ تھا. پاکستان سے سرمایہ کار بھاگ گیا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں میں ایسی پالیسیاں متعارف کرانی چاہئیں کہ دنیا بھر کا سرمایہ کار ہماری طرف متوجہ ہو، ملک میں انڈسٹریز لگے انڈسٹریز لگے گی تو لوگوں کو روزگار ملے گا۔ روزگار ملے گا تو غربت دور ہوگی۔ دکھ کم ہوں گے۔ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے گا۔ اسی طرح ہمیں اپنی زراعت کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے ہم نے اپنی زراعت کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا۔ ہمیں اپنی زراعت کو سائنسی بنیادوں پر تبدیل کر دینا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنی اگلی نسلوں کو سادہ تعلیم کے بجائے ہنرمندی کی طرف راغب کرنا ہو گا ہمارے ہنرمند ہمارا نام روشن کریں گے ان باتوں پر عمل کرنے سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بھی طاقتور ہوگا یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ مگر صرف باتوں سے نہیں عمل کرنے سے۔ہمیں قائد کے فرمان پر عمل کرنا چاہیے۔ کام کام اور صرف کام۔۔۔

تبصرے بند ہیں.