گورنر سرور سے کام لیں

22

حکمران جماعت تحریک انصاف کی بدقسمتی ہے کہ پنجاب میں بہترین شخصیات کا ساتھ ہونے کے باوجود ،ان سے سیاسی اور انتظامی سطح پر فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ،چودھری محمد سرور بھی ایک ایسی شخصیت ہیں جو تحریک انصاف کے ساتھ ہیں مگر ان کے تجربے،تدبراور تعلقات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں بے اختیا ر گورنر بنا کر محدود کر دیا گیا ہے ۔میاں نواز شریف کے سابقہ دور وزارت عظمیٰ میں وہ ملکی سیاست کا حصہ بنے اور سیاسی میدان میں ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوئے،ملکی سیاست میں عملی شرکت سے قبل لندن کی سیاست کا اہم حصہ تھے،وہ ایک ایسی نرم خو شخصیت ہیں جنہوں نے مختصر مدت میں ہی قومی سیاست میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا،گورنرسرور کی شخصیت، خوبیوں اور کمالات سے مزین ہے مگر ان کی سب سے بڑی خوبی غلط کو علی الاعلان غلط کہنا ہے،اس سلسلے میں انہوں نے کبھی سود و زیاں کو اپنے مؤقف کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا،نواز شریف سے اختلاف کا اس وقت بر سر عام اعلان کیا جب وہ وزیر اعظم تھے،عمران خان کی قیادت پر اعتماد کیا تو اسے خفیہ نہیں رکھا اور ان کے شانہ بشانہ ملک میں تبدیلی کیلئے سرگرم کردار ادا کیا،آج کل گورنر سرور ییلو نیوز کی زد میں ہیں ، ان کی لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی خبر چلائی جاتی ہے ، کبھی انہیں گورنری سے ہٹانے اور پھر خود گورنری چھوڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ، تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی بارے ایک تنقیدی بیان کو جواز بنا کر یہ باتیں اڑائی گئیں حالانکہ وہ بیان درد مندی سے دیا گیا اور ان کی صاف گوئی کی علامت ہے۔
چودھری سرور نے ان باتوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا جس کا واضح مطلب ہے کہ ان کو عہدوں سے دلچسپی نہیں ان کا مقصد ملک و قوم کی خدمت ہے جس کیلئے وہ کسی عہدے کے محتاج نہیں، اس کا ثبوت ان کے آبائی علاقہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ان کی مقامی لوگوں کیلئے خدمات ہیں جو تب سے جاری ہیں جب وہ پاکستانی سیاست کا باقاعدہ حصہ نہ تھے،سوشل میڈیا پر بے پر کی اڑائی گئی خبروں کی کوئی حقیقت نہیں ،ہو بھی تو گورنر سرور کی شخصیت ان باتوں سے ماوراء ہے،ان کا مشن خدمت ہے اور یہ کام وہ عملی سیاست اور حکومت میں شمولیت کے بناء بھی انجام دے رہے تھے،ایک بات مگر ماضی و حال کے حکمرانوں کے سوچنے کی تھی اور ہے،گورنر چودھری سرور جس پائے کے لیڈر اور جس درجے کے انسان ہیں ان سے وہ خدمت مسلم لیگ ن نے اپنے دور میں لی نہ تحریک انصاف نے اس کا ادراک کیا،تواضع،ملنساری،خوش خلقی، رواداری، تحمل،برداشت کی خوبیوں کے حامل چودھری سرور بد ترین حالات میں بھی بہترین ثالث اور مصالحت کا کردار ادا کر سکتے ہیں مگر ان کو گورنر کا عہدہ دے کر عملی سیاست سے الگ کر دیا گیا،نتیجے میں بہت سے غیر ضروری معاملات میں الجھ کر حکومت اور اپوزیشن نے ملک و قوم کا قیمتی وقت برباد کیا۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اہل لندن چودھری سرور کی خوبیوں ذہانت صلح جوئی کو تسلیم کرتے ہیں لہٰذا اب بھی جب کبھی وہ برطانیہ جاتے ہیں ملاقاتوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے،بہت سے مسائل ان کے پاس فیصلے کیلئے لائے جاتے ہیں مگر ہم نے چودھری سرور کو اب تک تارک وطن پاکستانی سے زیادہ اہمیت نہیں دی،موجودہ سیاسی کشمکش کے دور میں جب اپوزیشن وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی فروری میں کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے،تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی کے جن کے قابو میں ہے،نئے الیکشن سر پرآرہے ہیں اور حکومت کے پاس ایسا کوئی کارنامہ نہیں جسے لے کر انتخابی مہم میں اترا جائے،پنجاب حکومت بلدیاتی نظام کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا ہے،اس حوالے سے اتحادیوں میں بھی اختلافات سامنے آئے اور اپنے بھی ناراض ، اگر چہ حکومت نے ان پر قابو پا لیا ہے،مگر نئے بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے کا فقدان ہے جس کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن میں رکاوٹ ہے،وزیر اعظم یورپی طرز کے بلدیاتی نظام کے حامی ہیں اور چودھری سرور برطانوی مقامی حکومتوں کے نظام کو بہت ہی اچھے انداز سے جانتے ہیں۔مگر لگتا نہیں کہ ان سے راہنمائی لی گئی۔
بات اپوزیشن کی تحریک کی چلی ہے تو اس میں کوئی جان دکھائی نہیں دیتی،پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری عدم اعتماد تحریک میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینے سے انکار کر چکے ہیں،ان کا مطالبہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزارت عظمیٰ پیپلز پارٹی کو ملنی چاہئے کہ اس کے ووٹوں کے بغیر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانا ممکن نہیں،نواز شریف نے اس حوالے سے گرین سگنل دیدیا تھا مگر شہباز شریف اس پرآمادہ نہیں،پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی دونوں اپنی اپنی اہمیت تسلیم کرانے میں مصروف ہیں اور ان کوششوں کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ ڈھیل لینے کے چکر میں ہیں،شہباز شریف اپنی وفاداریاں اورآصف زرداری اپنی وفاداری نمایاں کرنے میں مصروف ہیں،ایسے میں نہ تو لانگ مارچ سے نتائج ہو سکتے ہیں اور نہ ہی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی کوئی امید ہے،اپوزیشن میں اگر اتفاق رائے ہوتا تو بجٹ ریفارمز کی قومی اسمبلی سے منظوری ممکن نہ تھی مگر حکومت اس حوالے سے سرخرو ٹھہری، چودھری سرور اپوزیشن میں توڑ پھوڑ اور رخنہ اندازی کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں مگر ان کی صلاحیتوں کو آزمائے نہ جانے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی۔
چودھری سرور نے ملک کی محبت میں برطانیہ کی شہریت چھوڑی،اور اپنا پھلتا پھولتا کاروبار بیٹے کے حوالے کر کے مستقل ڈیرے پاکستان میں لگا لئے لیکن ہمارے موروثی سیاسی خاندان ایک تجربہ کار،دیانت دار،لالچ حرص طمع سے عاری شخصیت کو وہ مقام دینے پر آمادہ نہیں جس کے وہ حقدار ہیں،وجہ یہ کہ چودھری سرور کا زیادہ عرصہ برطانوی سیاست میں گزرا جہاں اصول کی بہت اہمیت ہے،ذاتی اور پارٹی مفادات پر قومی اور ملکی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے،ضابطے اور قاعدے کے ساتھ آئین و قانون کا احترام کیا جاتا ہے،چودھری سرور میں بھی یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر ملکی سیاست میں ان کے قد کاٹھ کے مطابق انہیں جگہ نہیں دی گئی۔
ان سے خارجہ امور ،تعلقات اور رابطوں کے ساتھ ساتھ پنجاب میں سیاسی امور کے لئے کام لیا جا سکتا تھا مگر اس کے بجائے ان کے راستے میں رکاوٹیں ہی ڈالی گئیں ، اب سنا ہے وہ پنجاب میں الیکشن کے لئے کوئی کوئی حلقہ ڈھونڈ رہے ہیں،پہلے انہوں نے ساہیوال میں کام شروع کیا اور اب وہ ننکانہ صاحب میں رابطے استوار کر رہے ہیں ، سرور فاؤنڈیشن ان کے فلاحی کاموں کا ثبوت ہے ،ذاتی مفادات سے مبرا،کرپشن سے دامن پاک،سب کو ساتھ لے کر چلنے والے،قاعدے ضابطے کے پابند ،حکومت اگر باقی ماندہ مدت میں اچھے نتائج چاہتی ہے تو چودھری سرور سے فائدہ اٹھائے،اس سے پنجاب میں معاملات یقینی طور پر بہتر ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں.