کشمیر کا لبریشن سیل

44

کشمیر ریاضی کا فارمولہ نہیں ہے کہ جمع تفریق ضرب تقسیم کر کے اپنا مطلوبہ جواب تلاش کر لیا جائے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں اس کے کئی فریق سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری اور اثر پذیری کی وجہ سے وہ بھی اس کا ایک بڑا فریق بن گیا ہے۔ ہم چونکہ بھارت کا مقابلہ تن تنہا کرنے سے قاصر ہے اس لیے ہم نے اسے بھی اس مسئلہ کا فریق بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اب کشمیر حق خودارادیت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس کے مختلف حصوں پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کی بات ہوتی ہے۔ کشمیر کثیر اللسانی، کثیر الثقافتی قومیت کا نام ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھے بغیر ہم اسے حل کرنے سے قاصر ہیں۔
جنگ وجدل سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اپنی اپنی پوزیشن کو ایک طرف رکھ کر نئے زاویے تلاش کیے جائیں گے تو کسی حل کے قریب پہنچ سکتے ہیں ورنہ ہم ان کی نہیں مانتے وہ ہماری کیوں مانیں گے۔ ہم ایک فائر کریں گے ادھر سے دو فائر آئیں گے۔ کشمیر ایک قوم کے مسئلے سے زیادہ دونوں قوموں کی عزت کا سوال بن گیا ہے اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے کوئی بھی فریق کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ دونوں ملک اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنے اپنے حصے میں بھاری سرمایہ کاری اس یقین کے ساتھ کر رہے ہیں کہ یہ حصہ انہی کا ہے۔ باقی کے حصے پر بات کریں۔
گزشتہ دنوں کشمیر لبریشن سیل آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے سیکرٹری اعجاز حسین لون لاہور تشریف لائے تو ان سے ملاقات کا اہتمام کشمیر سنٹر ریسرچ ونگ کے سربراہ سردار ساجد محمود نے کیا۔ اس ملاقات میں ایڈیٹرز اور کالم نگاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ملاقات کا مقصد اس ادارے کو مزید فعال بنانے کے لیے تجاویز حاصل کرنا اور صاحب الرائے افراد کو اس ادارے کی کارکردگی سے آگاہ کرنا تھا۔ کشمیر لبریشن سیل آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور 1987 میں یہ اس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ پہلی بار کسی سیکرٹری نے اس طرح صحافیوں سے ملاقات کا اہتمام کر کے اس ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے آگاہ کیا۔ اصل میں
اس کی کارکردگی کیا تھی اس پر بات ہوئی چونکہ سیکرٹری صاحب اس محکمہ میں نئے ہیں اس لیے وہ اس کو پرانی روش سے ہٹ کر چلانا چاہتے ہیں۔ چلیں اتنے عرصہ بعد کسی کو تو خیال آیا۔ ماضی میں اس ادارے میں سیاسی بنیادوں پر بے تحاشا بھرتیاں کی گئیں۔ ہر حکمران نے اپنے قریبی رشتے داروں اور پارٹی ورکرز کو اس میں ملازمت دے کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے ان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے سرکاری وسائل مہیا کئے۔ بغیر کوئی کام کیے تنخواہوں کی وصولی اصل ہدف تھا اور مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے محض چند سرگرمیاں، ایک آدھ احتجاج اور کروڑوں کے فنڈز ہضم۔
اعجاز حسین لون کا خاندان منقسم ہے اور ان کے ایک بھائی مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ ایسے لوگوں کی تحریک آزادی کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے اور یہ خواہش بھی زیادہ ہوتی ہے کہ اس مسئلہ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر موثر طور پر اجاگر کیا جائے۔ سیاسی بھرتیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سارا کام ہو چکا ہے اور صرف ان لوگوں کو اس ادارے میں رکھا جائے گا جو اس ادارے کے لیے کارآمد ہیں، باقی افراد کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کشمیر کے لیے ایک تحقیقاتی ادارے کا وجود عمل میں لایا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر سے کشمیر پر تحقیق کرنے والے سکالرز کو لایا جائے گا۔ جب غیر جانبدار لوگ یہاں آکر تحقیق کریں گے تو دنیا کو اس مسئلہ کے حوالے سے زیادہ جانکاری ہو گی۔ ان کی بات کو سنا جائے گا۔ اسی طرح سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے بھی کام زوروشور سے جاری ہے۔
کشمیر کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کرانے کی بات پر بھی انہوں نے اپنی رائے دی اور بتایا کہ اس پر بھی کام ہو رہا ہے۔ کشمیر کی زبانوں اور اس کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے منصوبے میں موجود ہیں۔ سچ پوچھیں تو ایک عرصہ کے بعد اس طرح کی گفتگو ہو رہی ہے۔ محفل کے شرکا کے سخت سوالوں کا جواب بھی انہوں نے خندہ پیشانی سے دیا اور جو معاملات ان کے محکمہ کے دائرہ کار میں نہیں آتے ان پر بات کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ شرکاء محفل نے سیکرٹری لبریشن سیل کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی کہ کشمیر سنٹر کرایے کی عمارت میں کام کر رہا ہے لیکن اس کی عمارت کے لیے جیل روڈ پر خریدے گئے اربوں روپے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے نظریں جمی ہوئی ہیں اس پر کام شروع ہونا چاہیے۔ کشمیر سنٹر کی وہ عمارت بن جائے تو نہ صرف کرایوں سے جان چھوٹ جائے گی بلکہ وہ کشمیر سنٹر کے اخراجات کو پورے کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ سیکرٹری صاحب نے اس حوالے سے وعدہ کیا ہے دیکھیں کب ہم جیل روڈ پر کشمیر سنٹر کی عمارت کو بنتا ہوا دیکھتے ہیں۔ کشمیر سنٹر کے سردار ساجد محمود ایک عرصہ سے تحقیق سے وابستہ ہیں اور اب بھی وہ لاہور سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ ماضی میں انہیں بھی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے جتن کیے گئے۔ سیکرٹری صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ اس ادارے کو سیاسی اکھاڑہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کام پر زیادہ توجہ دی جائے جس مقصد کے لیے یہ ادارہ بنا تھا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں سیمینارز اور مباحثوں کو شروع کرانے کا منصوبہ تیار کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سوشل میڈیا کو موثر طور پر استعمال کرنے کے لیے تمام تر کام کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اس کی سرگرمیوں کا آغاز ہو جائے گا۔ اس ملاقات میں ہمدم دیرینہ منشا قاضی سے گفتگو بھی ہوئی۔ ان کی زبان و بیان کے چاشنی اور شستہ اردو نے محفل کو گل و گلزار بنا دیا۔
اس طرح کی ملاقاتیں محض چائے کے ایک کپ پر ہونے والی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ بہت سے ایسے موضوعات اور معاملات بھی سامنے آتے ہیں جو نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ کشمیر سنٹر اور کشمیر لبریشن سیل سے اگر کام لیا جائے تو اس تحریک کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے بہت سا کام کیا جا سکتا ہے۔ اس ادارے کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیے۔ انٹرنیٹ پر کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے جتنا زیادہ کام ہو گا اتنا ہی یہ مسئلہ دنیا کے سامنے آئے گا۔ دنیا تک یہ پیغام پہنچا ضروری ہے کہ اگر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا اور دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس جھگڑے کو ختم نہ کرایا گیا تو کسی بھی وقت دنیا ایک بڑے سانحے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس کے وعدے یاد دلانے کی ضرورت ہے جو اس نے کشمیریوں کے ساتھ کیے تھے۔ اس طرح کے ادارے تحریکوں کو فکری بنیاد فراہم کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ یہ ادارہ بھی اپنے اصل کام کی طرف لوٹ آئے اور ہمیں وہ دور دیکھنے کو نہ ملے جس میں کروڑوں روپے کے فنڈز ہضم کر لیے گئے اور نتیجہ صفر۔

تبصرے بند ہیں.