جماعت اسلامی کی نئی انگڑائی

35

جماعت اسلامی میں سیاسی زندگی کی ایک نئی لہر ابھرتی نظر آ رہی ہے… خاص طور پر صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صنعتی و تجارتی شہر کراچی جو کبھی منی پاکستان کہلاتا تھا میں جس کے اثرات اگر یہی رفتار جاری رہی تو جلد پورے ملک کی سیاست پر نظر آ سکتے ہیں کوئی ایک مہینہ پہلے بلوچستان کی جماعت نے گوادر کے مسائل پر بڑا دھرنا دیا… اس کے ٹھوس نتائج تو سامنے نہیں آئے لیکن دھرنا ملک بھر میں تبصروں کا موضوع بن گیا… جس نے وہاں کے قوم پرست سیاستدانوں تک کی آنکھوں کو دھندلا دیا… کراچی جیسے شہر میں جو کبھی اس کی مقبولیت کا گڑھ ہوا کرتا تھا مگر اس کے بعد ایم کیو ایم کی خونی یلغار جس کے پیچھے ہماری مختلف قوتوں کی خاموش اور جانی پہچانی دونوں طرح کی منصوبہ بندی شامل تھی اس اسلامی اور قومی جماعت کو انتخابی اکھاڑے سے باہر نکال دیا… شہر میں جماعت کی نمائندہ حیثیت ختم ہو کر رہ گئی… اب ایسا معلوم ہوتا ہے اس کی مقامی قیادت نے ایک مرتبہ پھر انگڑائی لی ہے… امیرِ کراچی حافظ نعیم الرحمان کی مقابلتاً جواں سال شخصیت اس کی قوتِ متحرکہ ہیں اور اپنی جماعت کی سرگرمیوں کو کامیابی کے ساتھ نتیجہ خیز بنانے کے لئے شب و روز سرگرم عمل ہیں… اس ضمن میں انہیں پہلی قابل ذکر کامیابی اس وقت ملی جب جماعت نے کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں حصہ لے کر اپنی نئی کامیابیوں کی شروعات کیں۔ حافظ صاحب نے اتنے بڑے اور پیچیدہ ترین مسائل کے شکار شہر کے ہر مسئلے پر اپنا نقطۂ نظر پوری جرأت اور یقین کے ساتھ پیش کیا تھا… اور اس کے حل کے لئے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز اس حوالے سے صوبہ سندھ کی صوبائی حکومت جو بلدیاتی اختیارات کو بھی ناجائز طور پر اپنی مٹھی میں لی ہوئی ہے بے نقاب کیا… یہ کام اگرچہ وہاں کی اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی کر رہی ہیں لیکن ان کے اندر شاید ان کے مفادات کا کوئی تقاضا ہے کہ ان کے مطالبے اتنے بارآور ثابت نہیں ہوئے جس قدر بے لوث طریقے سے حافظ نعیم الرحمان اپنے مشن کو لے کر آگے بڑھے ہیں وہ باقی سب کو پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے… ان دنوں حافظ صاحب کی قیادت میں شہر کے اندر جو دھرنا دیا گیا ہے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جدوجہد کے اگلے مرحلوں کا نقطۂ آغاز بن جائے گا… شہری مسائل کو منوانے کے لئے اب احتجاجی دھرنا ایک سے زیادہ مقامات پر ڈیرا ڈالے ہوئے ہے… دوسری جماعتوں کے پاس اس کی خاموش یا باآواز بلند حمایت کرنے کے سوا چارئہ کار نہیں… یوں موجودہ امیر جماعت شہر اور کراچی کی وجہ سے ملک کی سربرآوردہ سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرتے نظر آ رہے ہیں…
جماعت صوبہ خیبرپختونخوا پہلے ہی دو تین نشستوں پرجیتتی چلی آ رہی ہے… پنجاب اگرچہ ابھی تک اس کے لئے چٹیل میدان ہے اس صوبہ کی انتخابی طاقت کو کب کا کھو چکی… پھر اس کی سٹریٹ پاور کا چرچا ہوا… 90 کی دہائی کے اختتام پر ہی یہ طاقت بھی دم توڑ گئی… یوں قومی سیاست میں جماعت کا مقام بلندیوں سے بہت نیچے آ گیا تاہم اب توقع رکھنی چاہئے کہ حافظ نعیم الرحمان نے کراچی کے اندر جماعت کی مقبولیت کے جو نئے خیمے گاڑھے ہیں وہ جماعت کو پنجاب میں بھی اپنا مقام بنانے میں مدد دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ جماعت کی مرکزی قیادت میں بوسیدگی
کے جو آثار پائے جاتے ہیں ان کو کھرچ کھرچ کر باہر نکالا جائے… اس بوسیدگی کو جماعت کی قومی پالیسیوں کا حصہ پیوست کرنے میں افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں بڑا رول ادا کیا… جو اگرچہ ایک مطلوب قومی اور اسلامی مشن تھا لیکن جماعت اس کی گرداب میں کچھ پھنس کر رہ گئی جس کی وجہ سے ایجنسیوں کو پاکستان میں بھی اپنا سیاسی کھیل کھیلنے میں مدد ملی اور جماعت اسلامی جیسی مؤثر ترین اسلامی نظریہ کی پارٹی کی آزاد سیاست کو گِھن لگنا شروع ہو گیا… تاہم اب جو برف پگھلنا شروع ہوئی تو امید کرنی چاہئے کہ حافظ نعیم الرحمان کراچی اور سندھ میں کامیابی کی دوڑیں لگانے کے بعد مرکزی قیادت کے اندر بھی اپنا مقام بنا لیں گے… جس سے ان وسوسوں اور شکایات کو بھی دور کرنے کا موقع ملے گا جن کی جانب سابق امیر جماعت سید منور حسن اپنے تحفظات کا اظہار کیا کرتے تھے… یوں وہ دَور واپس آ سکتا ہے جس کے اصل قائد اور بانی جماعت مفکر اسلام سید مولانا مودودی تھے جنہوں نے 50 اور 60 کی دہائیوں میں پاکستان کے اندر اسلامی جمہوری آئین کی تیاری، اس کے نفاذ اور اسے منوانے کے لئے قائدانہ اور فکرانگیز کردار ادا کیا… اسی امر نے جماعت کو پاکستان کی صف اوّل کی سیاست میں بہت بڑا مقام دیا… اب حالات جو نئی کروٹ لے رہے ہیں ان کے اندر جماعت کے لئے موقع ہے کہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ قومی سیاست کے دائرے میں شامل ہو اور اپنی تمام تر وابستگیاںپوری آزادی کے ساتھ ہر طرح کے غیرمرئی اثرات سے محفوظ ہو کر اپنے اصلی نصب العین جس کی خاطر اسے قائم کیا گیا تھا اسے بروئے کار لائے…
پاکستان کی قومی سیاست لمحۂ موجود اور عمرانی حکومت کی ساڑھے تین سال گزار لینے کے بعد حددرجہ پراگندگی کی شکار ہو کر تنزل کے جس مقام پر جا کھڑی ہے وہ قابل بیان نہیں… اس ضمن میں عمران خان بہادر کی جو درگت بنی ہے اور بنتی چلی جا رہی ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں… خواری کی منازل سے گزر کر منی بجٹ تو منظور کروا لیا گیا مگر قربانی کے طور پر آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لئے لوگوں پر ٹیکسوں کے ڈھیر انڈیل دیئے گئے ہیں… سٹیٹ بینک عملاً اس عالمی ادارے کے کنٹرول میں چلا گیا ہے… ہماری معاشی آزادی پر ایسی قدغن لگی ہے کہ اس کے واضح منفی اثرات قومی خودمختاری پر پڑیں گے… مہنگائی جو پہلے ہی جان لیوا تھی اب عام آدمی کا جینا حرام کرنے پر اتر آئی ہے … بے روزگاری نوجوانوں کا منہ چڑا رہی ہے اس عالم اور کیفیت میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت سے ملک و قوم کی جان چھڑانے کے لئے مختلف آئینی طریقہ ہائے عمل پر غور کر رہی ہیں… ایک آپشن جو جناب آصف علی زرداری کو بہت مرغوب ہے اور شہباز شریف صاحب بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ عدم اعتماد کا ووٹ ہے اور دوسرا عام انتخابات کے انعقاد تک انتظار کرنا اور عوام سے اس حکومت کے مستقبل کے بارے میں قطعی اور حتمی فیصلہ حاصل کرنا ہے… جہاں تک پہلے طریقۂ عمل کا تعلق ہے اس پر اصرار تو بہت کیا جا رہا ہے لیکن کم از کم بے نظیر بھٹو کے پہلے دور سے لے کر موجودہ منی بجٹ کے منظور ہونے تک کے بار بار تجربے یہ بتاتے ہیں کہ محض نمبرگیم ہونے کی بنا پر وقت کی حکومت خواہ کتنی غیرمقبول ہو گنتی کی دوڑ جیت کر اپنے وجود کو بچا لے جاتی ہے… جو اتحادی ناراض ہوتے ہیں انہیں عین آخری وقت پر رضامند کر لیا جاتا ہے… اس کے برعکس اگر آپ معاملہ پاکستان کی رائے عامہ کے سپرد کر دیں ووٹروں سے جو اصل اور فیصلہ کن قوت ہیں ان کی رائے حاصل کریں یعنی شفاف اور آزاد ترین انتخابات جو ہر طرح کے بیرونی اثرات اور دبائو سے پاک ہوں ان کے نتائج کا انتظار کیا جائے تو نہ عمران خان کو شہید کہلانے کا موقع ملے گا اور انتخابی نتائج کو بھی ہر کوئی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا… جوتبدیلی آئے گی وہ پائیدار ہو گی… صوبہ خیبرپختونخوا کے ضمنی انتخابات کی اندھیری نے ہمارے من موجی وزیراعظمی کی ساکھ اڑا کر رکھ دی ہے اب وہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر گریزاں نظر آتے ہیں… وقت ٹالنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں… ان کا نظام اوقات ایک آرڈیننس پر لٹکا ہوا ہے جو اگلے تین ماہ میں دم توڑ کر رکھ دے گا لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں خان بہادر کی حکومت کا اس سے بڑا اثر ہو گا جس سے صوبہ خیبرپختونخوا میں اسے دوچار ہونا پڑا ہے اس سارے ماحول کے نتیجے میں 2023 یا اس سے ما قبل عام انتخابات ہوں گے تو ملک کی سیاست پر کس قسم کی زبردست تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں یہ امر ہر ایک پر روزِ روشن کی طرح واضح ہے… لہٰذا کیا بہتر نہیں ہو گا ٹھوس آئینی اور جمہوری طرز عمل اختیار کیا جائے… ایک سخت نامطلوب اور ناپسندیدہ حکومت سے نجات حاصل کرنے کا یہی مؤثر اور آئینی طرزعمل ہے اس پر جم کر چلنا شاید دوسرے آپشن کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہو…

تبصرے بند ہیں.