قازقستان مظاہرے اور مداخلت

36

قازقستان بظاہر وسطی ایشیا کامعاشی لحاظ سے مستحکم اور خوشحال ملک ہے کیونکہ اُس کے پاس تیل و گیس وغیرہ کے وسیع ذخائر ہیں لیکن دو جنوری کو پیٹرول اور ایل پی جی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج پانچ جنوری تک پُر تشدد ہو گیا جس نے جلد ہی دارالحکومت الماتے سمیت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں میں جابجا دوبدو لڑائی بھی ہوئی جس کے دوران دو سو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی بھی ہوئے مظاہروں میں حصہ لینے، سرکاری املاک لوٹنے اور آگ لگانے کے جرم میں اب تک دس ہزار افراد گرفتار ہیں ملک میں کشیدہ صورتحال کے پیشِ نظر صدر قاسم جومارت توقائف نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ مظاہروں پر قابوں پانے کے لیے روس سے مدد طلب کی دوسرا دارالحکومت الماتے سمیت مظاہروں کے مراکز شہروں میں سترہ جنوری تک ایمرجنسی لگا دی ایمرجنسی لگنے کے چند گھنٹوں بعد ہی وزیرِ اعظم عسکرمامن مستعفی ہونے پر عبوری کابینہ تشکیل دیدی ایک ہفتہ سے زائد جاری رہنے والے مظاہروں کو کچلنے کے بعد ہونے والے نقصان پر سوگ بھی منایا جاچکا صدر قاسم کہتے ہیں کہ حکومت گرانے کے لیے مظاہرے ہوئے نیزمسلح عسکریت پسند مظاہرین میں شامل ہونے کے انتظار میں تھے لیکن بروقت اقدامات سے بے چینی پر قابو پایا جا چکا مگر کیا بات اتنی سادہ ہے جس طرح بیان کی جا رہی ہے؟ ایسا نہیں۔ کیونکہ صرف حکومت گرانا مقصود ہوتا تو مظاہرے شدت پکڑتے ہی حکومت تو مستعفی ہو گئی تھی جس کے بعد احتجاج جاری رکھنے کا جواز نہیں تھا مظاہرے برقرار رہنے کی اصل وجہ ملک میں کرپشن کا ناسور اور نورسلطان نذربائیوف کی حکومتی امور میں بے جا مداخلت ہے۔
نور سلطان نذر بائیوف اور اُن کے اہلِ خانہ پر کرپشن، اقربا پروری اور حکومتی امور میں مداخلت کے سنگین الزامات ہیں پیٹرول اور ایل پی جی کے نرخوں میں اضافہ تو محض بہانہ تھا  اسی لیے کابینہ سمیت وزیراعظم کے استعفے کے باوجود احتجاج جاری رہااور غصے و نفرت سے مغلوب مظاہرین لوٹ مار اور املاک نذرِ آتش کرنے کی طرف آئے مظاہرے ختم ہونے کے بعد جائزہ لیں کہ کیا مظاہرین کے مطالبات پورے ہوئے؟ ایسا کچھ نہیں ہوابلکہ روسی دستوں کی آمد اور انتباہ کے بغیر گولی چلانے کے احکامات جاری ہونے پر مظاہرین پسپا ہوئے مگراب سوال یہ ہے کہ کیا قازقستان متوازن خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرلے گا؟ سوال کی وجہ یہ ہے کہ تیس برس قبل سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے آزادملک کے طور پرقازقستان نے جب دنیا سے تعلقات کا آغاز کیا توابتدا میںآزاد خارجہ پالیسی کا تاثر دیا بیرونی تعلقات میں توازن رکھنے پر آمادہ کرنے کے لیے ہی امریکی وزیرِ خارجہ جیمز بیکربھاگم بھاگ دورے پر آئے اور قازق رہنما نورسلطان نذربائیوف کے ساتھ ووڈکاکے جام پی کر مضبوط اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا عزم ظاہرکیاظاہرہے مقصد روس سے آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں سے تعلقات بنا کر سابق سُپر پاور کے قریب موجودگی یقینی بنانے کے ساتھ معاشی اورتجارتی مفادات حاصل کرنا تھا اسی تناظر میں امریکی صدر نے ایک بار نور سلطان کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا ہمارا ملک آپ کے ملک کوفخریہ اپنا دوست کہتا ہے آزادی کے وقت قازقستان کی اہمیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُس کے پاس کافی ایٹمی ہتھیار تھے جودنیاکا چوتھا بڑاذخیرہ تھے اوراب تلف کر دیئے گئے ہیں اسی دوران تیل کی صنعت کی ترقی کے لیے قازقستان نے کئی امریکی کمپنیوں سے معاہدے کیے لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے اور کسی بھی چیلنج یا بحران کے ایام میں وسطی ایشیائی ریاستیں روس کی طرف دیکھتی ہیں اور امریکہ کو قابلِ بھروسہ دوست نہیں سمجھتیں مظاہروں پر قابو پانے کے لیے قازق صدر کا روس کو دعوت دینا اِس خیال کوتقویت دیتاہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک سے روس کے بڑھتے تنائو کے باوجود صدر ولادیمرپوٹن نے قازقستان میں عوامی بے چینی ختم کر نے کے لیے فوج روانہ کی جس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ اول وسطی ایشیائی ریاستوں کی علیحدگی کے باوجود خطے میں وہ کسی اور عالمی طاقت کو مداخلت کا موقع نہیں دینا چاہتے مگرخود قابلِ بھروسہ دوستوں کو نظم و نسق برقرار رکھنے میں فوری مدد فراہم کرنے پر یقین رکھتے ہیں دوم انسانی حقوق کی آڑ میں دبانے سے امریکہ اور مغرب دوستوں سے محروم ہوتے جارہے ہمسایہ ریاستوں آرمینیا،بیلا روس اور یوکرائن میں روسی مداخلت عیاں حقیقت ہے اسی لیے امریکہ سے کئی دوطرفہ معاہدوں کے باوجود قازقستان نے بحران میں اُسے نظرانداز کرتے ہوئے ہمسایہ ملک روس کی طرف دیکھااور مدد طلب کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسطی ایشیا میں روسی اہمیت ومداخلت مسلمہ ہے ۔
روسی اور امریکی صدور گفتگو کے دوران ایک دوسرے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے چکے پھربھی قازقستان بحران میں مدد کے لیے روس کا پچیس سو فوجی بھیجنا ثابت کرتا ہے کہ پوٹن پُر اعتماد اور اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں انھوں نے اگست 2020 میں ہمسایہ ملک بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکوکے خلاف عوامی مظاہروں کوکچلنے کے لیے نہ صرف مدد کی پیشکش کی بلکہ سفارتی حوالے سے مغربی ممالک کے دبائو کے خلاف لوکا شینکو کے ساتھ کھڑے نظر آئے آزربائیجان اورآرمینیامیں جاری جنگ روکنے کے لیے فوجی دستے بھیجے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ فوجی تعینات کرکے نیٹو کو دبائو میں لا چکے ہیں یوکرائن پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرانے کے باوجود بحران زدہ علاقوں میں روسی مداخلت بڑھنے سے صاف ظاہر ہے کہ خطے میں پوٹن اپنے ایجنڈے کے سواکچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
عوامی بے چینی کچلنے کے لیے روس نے ایسے پچیس سو فوجی قازقستان بھیجے جو سپیشل آپریشنز کی شہرت رکھنے والی اُس پینتالیسویں برگیڈ سے تعلق رکھتے ہیںجس نے چیچنیا میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران بے رحمی اور بے دردی سے روس کے خلاف جاری عوامی شورش کو ٹھکانے لگایا 2008میںجارجیا کے علاقے اوستیہ میں بھی یہی بریگیڈ متحرک رہی 2014 میں کریمیا کو روس میں ضم کرنے میں بھی اسی بریگیڈ کاکلیدی کردارہے عام خیال یہ ہے کہ شام میں بھی اسی بریگیڈ کے دستے سرگرم ہیں آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں کے حکمرانوںکودوبارہ روسی تسلط میں لانے اور کنٹرول کاکام بھی پوٹن اسی بریگیڈ کوسونپ رہے ہیں قازقستان مظاہروں میں امریکہ اور مغرب فاصلے پر نظر آئے مگر بروقت مدد سے روسی دوستوں کی تعداد میں ایک اور دوست کا اضافہ ضرور ہوگیا ہے البتہ سویڈن اور فن لینڈ جیسے ممالک روسی مداخلت کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے نیٹو کی طرف جا سکتے ہیں لیکن یہ کیا کم ہے کہ دھمکیوں کے باوجود پوٹن اپنے ایجنڈے پر ثابت قدم ہیں پوٹن کے بروقت فیصلوں سے وسطی ایشیائی ریاستیں امریکہ سے دور ہوتی جارہی ہیں کیونکہ فوجی امداد سے پوٹن علاقے کے ایک ناگزیر محافظ کے طور پر سامنے آئے ہیں جس کافائدہ روس مراعات کی صورت میں ملے گا مزید برآں یہ کہ وسطی ایشیائی ممالک کوخطے سے باہر عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھنے کی پالیسی روس کے حق میں کرنے کی ترغیب ملے گی۔
مظاہرے کچلنے اورعلیخان اسماعیلوف کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد روسی دستوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں رہا صدر قاسم جومارت نے عوام سے نشری خطاب میں روسی فوجی اتحاد کا مشن مکمل ہونے کی بات کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ دوروزتک فوجی انخلا شروع ہوکر دس دن میں پایہ تکمیل کوپہنچ جائے گا مگر روس کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں وہ جاتا ہے مکمل طور پر رخصت ہونے کے بجائے کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے صدر پوٹن کاقازقستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی بات کرنا اسی جانب اشارہ ہے نیز یہ کہنا کہ وہ خطے میں کسی انقلاب کو رونمانہیں ہونے دیں گے اور شورش کو رفع کرنے کے لیے بھیجی فوج محدود وقت تک قیام کرے گی سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قازقستان مظاہروں سے عوام کے بھلے کے بجائے اِس اہم ملک میں محض روسی مداخلت کا جواز پیدا ہوا ہے؟۔

تبصرے بند ہیں.