مری میں تباہی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ!…

16

پاکستان میں روایت یہ قائم ہوگئی ہے کہ زلزلے سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جائیں، تب بھی سیاست داں باز نہیں آتے اور اس حادثے پر بھی سیاست کرتے اور حکومت کو لعن طعن کرتے ہیں۔ سیلاب سے ہزاروں متاثر ہوجائیں، تب بھی پوائنٹ سکورنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے تفریحی مقام ملکہ کوہسار مری میں ریکارڈ برف باری ہوئی، جس میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار گاڑیاں پھنس گئیں اور 23افراد کے ہلاک ہوجانے کی اطلاعات ہیں۔ تقریباً 6فٹ برف پڑی اور طوفانی برف باری ہوئی۔ اب جب کہ حالات نارمل ہوتے جارہے ہیں، سیاسی بحث و مباحثوں میں گرما گرمی بڑھ رہی ہے اور الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ ہر سیاسی جماعت حکومت پر چڑھ دوڑی ہے کہ ایسے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے کہ اتنی ساری گاڑیاں مری میں داخل نہ ہوتیں؟ جب لوگ گاڑیوں میں پھنسے ہوئے تھے، تو انہیں نکالا کیوں نہیں جاسکا؟ ہر گاڑی میں کمبل کیوں نہیں پہنچائے گئے؟ سب کو کھانے پینے کی اشیاء کیوں نہیں پہنچائی جاسکیں۔ پھنسے ہوئے سیّاحوں کی گاڑیاں بروقت نکالی کیوں نہ جاسکیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
سوالات تو درست معلوم ہوتے ہیں، اتنا خوب صورت سیّاحی مقام جہاں ہر سال لوگ گرمیوں میں بھی جایا کرتے ہیں اور برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے سردیوں میں بھی یلغار کرتے ہیں۔ یہ باتیں آج نئی نہیں ہوئیں۔ برسہا برس سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا آج تک کسی حکومت نے مری جانے والے راستے کو دو رویہ کیوں نہیں بنایا؟ مری کے ارد گرد پارکنگ کے باقاعدہ انتظامات کبھی کیوں نہیں کیے گئے؟ مری کے اندر بھی تنگ گلیوں کو کشادہ کیوں نہیں کیا گیا؟اتنے اہم اور پرفضا مقام کو برسہا برس سے ضلع کا درجہ کیوں نہیں دیا گیا؟تاکہ اسی حساب سے انتظامیہ کو وسیع کیا جاتا اور نفری اور ضروریات کے سامان بھی وافر انداز میں مہیّا ہوتے؟ صرف ایک حکومت پر بوچھاڑ کرنا مناسب بات نہیں۔ جب ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں پھنس گئی تھیں اور چھ فٹ برف سے وہ ڈوب چکی تھیں، تو ان گاڑیوں کو کیسے نکالا جاسکتا تھا؟ برفانی طوفان کی وجہ سے درخت سڑکوں پر گرے پڑے تھے، بجلی کے کھمبے گرچکے تھے۔ بجلی غائب تھی جو عموماً ایسے موقعوں پر ہوا کرتی ہے۔ کس طرح
ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائی ہوسکتی تھی؟ موسم کی انتہائی خرابی کے باعث ہیلی کاپٹر تک استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایک لاکھ گاڑیوں کے اندر اگر اوسطاً تین افراد بھی سوار ہوں تو تین لاکھ افراد کو ہر گاڑی میں سامان پہنچانے کے لیے کم از کم فی گاڑی ایک مددگار تو دستیاب ہونا ضروری تھا۔ کیا مری جیسے علاقے کی انتظامیہ کے پاس اتنی نفری ہوسکتی تھی؟ ایک تنقید یہ بھی ہورہی ہے کہ اتنی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت کیوں دی گئی؟تو کیا مری پہنچ کر آگے راستہ بند ہوجاتا ہے کہ گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے سے روکا جاتا۔ مری سے ہوکر آزاد کشمیر کو بھی راستے جاتے ہیں۔ کے پی کے اور دیگر علاقوں کو بھی راستے جاتے ہیں اور یقیناً عام حالات میں مری جانے والی گاڑیاں مختلف راستوں سے آگے نکل سکتی تھیں، مگر پھر وہی بات کہ طوفانی برف باری میں چھ فٹ برف گری، جس نے گھروں اور گاڑیوں تک کو دفن کردیا۔ تو اس تباہی کی اصل وجہ ریکارڈ برف باری تھی۔ یقیناً انتظامیہ کو صوبائی سطح پر اس کا نوٹس قبل از وقت لینا چاہیے تھا ، مگر پورے کا پورا الزام حکومت پر لگادینا زیادتی ہے۔ الزامات لگانے والے سیاسی رہنمائوں کو ذرا ماضی کی طرف جانا چاہیے۔ یہ تو آسمانی آفت تھی۔ ماڈل ٹائون میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان گھنٹوں جنگی محاذ بنا ہوا تھا ا ور وزیراعلیٰ کوا س کی خبر ہی نہ ہوسکی کہ پولیس کو ایسا کرنے کا حکم کس نے دیا تھا۔ آج تک اس کی ذمّے داری کوئی قبول نہ کرسکا۔ ملک کا پہلا وزیراعظم قتل کردیا گیا، قاتل پکڑا بھی گیا، مگر آج 75برس بعد بھی پتا نہیں چلا کس نے ایسا کرایا۔ بے نظیر بھٹو سرِعام قتل کردی گئیں۔ ان کی جماعت برسرِ اقتدار آئی، وہ بھی قاتلوں کا کھوج نہ لگاسکی۔ 27دسمبر کو کراچی آگ و خون میں نہلادیا گیا۔ اس کو کسی نے نہ روکا۔ پاکستان میں زلزلے آتے ہیں، ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ پہلے سے احتیاطی تدابیر کیوں اختیار نہیں کی جاتیں؟ سیلاب سے ہزاروں گھر تباہ ہوجاتے ہیں اور ہلاکتیں ہوتی ہیں، کسی حکومت نے پہلے سے لوگوں کا انخلا کیوں نہیں کرایا؟
ان ساری باتوں کا جواب یہ ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک میں ایسی آفتوں کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ وسائل کی کمی اور انفراسٹرکچر کا نہ ہونا مجبوری ہوتی ہے۔ مری کی ایک رویہ سڑک، تنگ گلیاں اور اوپر سے برفانی طوفان۔ نظام تو درہم برہم ہونا ہی تھا۔ جو لوگ جان سے گئے اس پر جتنا غم کیا جائے، کم ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تفریح کے لیے جانے والوں نے یہ کیوں نہ سوچا کہ درجہ حرارت منفی جارہا ہے۔ برف باری شدید بھی ہوسکتی ہے۔ کیوں نہ اس کی تیاری کرلی جائے؟ کیا گاڑی استعمال کرتے ہوئے اس میں پیٹرول نہیں ڈالا جاتا؟ اسی طرح گاڑی میں کمبل اور کھانے پینے کی اشیاء  نہیں رکھی جاسکتی تھیں؟ جو ہلاکتیں ہوئی ہیں، خبروں کے مطابق گاڑیوں میں بیٹھے رہنے سے ہوئی ہیں۔ یا تو ٹھٹھر کر ہلاک ہوئے یا گاڑی کی ہیٹر سے گاڑی میں گیس بھر گئی۔ گاڑی کے شیشے کھولنے کا بھی فائدہ نہیں ہوا ہوگا، کیوں کہ گاڑی تو برف کے اندر ڈھکی ہوئی ہوں گی اور اندر سے گیس باہر نکلنے کا راستہ ہی نہ ہوگا۔ یقین جانیے یہ ایک حادثہ تھا جو رونما ہوگیا۔ الزامات کی بوچھاڑ کے بجائے اگر تمام سیاسی جماعتیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے علاقائی عہدیداروں اور کارکنوں کو حکم دیتیں کہ امدادی کام شروع کردیں، تو بات کچھ اور ہوتی۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ سیلاب اور زلزلے کے موقع پر سیاسی اور سماجی جماعتیں اپنے طور پر بھی امدادی کام کرتی ہیں، مگر اب تو پاکستان کا کلچر ہی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ نواز شریف وزیراعظم بنتے ہیںتو پہلے سال سے ہی ان کو فارغ کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ کبھی صدر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیتا تھا، کبھی آرمی چیف۔ جب زرداری صدر بنے تو پہلے دن سے یہ خبریں گرم ہونے لگیں کہ طیارہ چکلالہ پر کھڑا ہے، یہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اب عمران خان آئے ہیں، تو پہلے سال سے ان کو چلتا کرنے کی مہم چلی ہوئی ہے۔
آخر میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ ایسی آفات کے مواقع پر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ایسی ہی تباہیاں آتی ہیں۔ صرف دو مثالیں دے رہا ہوں۔ پچھلے برس امریکا کی ریاست ٹیکساس میں زبردست برفانی طوفان آیا۔ پہلے سے کوئی انتظام نہ تھا، بجلی مکمل بند ہوگئی۔ پانی اور گیس کی پائپ لائنیں پھٹ گئیں۔ پانی جم گیا، 196اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ 210افراد ہلاک ہوئے۔
کئی برس پہلے نیواورلین اور لوزیا نا میں طوفان آیا۔ 1836افراد ہلاک ہوگئے۔ آج تک 705افراد غائب ہیں۔ 15ملین افراد متاثر ہوئے۔
ایسی تباہیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ حکومتوں کو دیرپا منصوبے بنانے چاہئیں۔ یہ کئی حکومتوں کا ایک مسلسل منصوبہ ہونا چاہیے اور ایسی مصیبتوں کے مواقع پر قوم اور سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر آفات کا مقابلہ کرنا چاہیے اور متاثرین سے ہم دردی کرنی چاہیے، نہ کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ۔

تبصرے بند ہیں.