مری کا سانحہ میرے ذہن سے نہیں اتر رہا، میں قائل ہوں کہ بائیس افراد کی ہلاکت انتظامی ناکامی کے سوا کچھ نہیں تھی۔ میںسوچ رہا تھا کہ تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے مگر حل دینا مشکل۔ میں اگر وزیراعلیٰ ہوتا تو اس سانحے کے بعد میرا لائحہ عمل کیا ہوتا۔ اس امر سے تو کوئی انکا رنہیں کہ تحقیقات کے نتائج جو بھی آئیں، راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر،مری کے اسسٹنٹ کمشنر، چیف ٹریفک آفیسر ، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور بلدیہ کے متعلقہ سربراہ کے ان عہدوں پر رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، ہاں ، یہ نوکری میںبھی رہیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ تحقیقاتی رپورٹ کے بعد کیا جاسکتا ہے۔ میں وزیراعلیٰ ہوتا تو یہ سب افسران اس وقت حفاظتی تحویل میں ہوتے تاکہ یہ انکوائری پر اثرانداز نہ ہوسکیں، جعلی ثبوت ، گواہیاں اور ڈاکومنٹس تیار نہ کر سکیں۔ جب آپ ملزموں کو عہدوں پر رکھتے ہیں تو آپ انہیں دھوکہ دینے کا اختیار دے رہے ہوتے ہیں ، آپ انہیں موقع دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داری کسی دوسرے پر ڈال سکیں۔
میں وزیراعلیٰ ہوتا تو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلاتا اور صرف مری ہی نہیں بلکہ صوبے کے ہر ضلعے کے حوالے سے ایونٹس کا ایک چارٹ مرتب کرنے کا حکم دیتا۔ جیسے ہی یہ چارٹ مرتب ہوتا تو اس کا اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ان تمام ایونٹس کے حفاظتی اور انتظامی اقدامات کی فہرست تیار کی جائے اور انہیں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں سٹینڈر ڈ آپریٹنگ پروسیجرز کے طور پر لاگو کر دیا جاتا۔ اس پورے عمل کو پنجاب اسمبلی سے قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا جاتا یعنی قانون کسی بھی ضلعے میں لگنے والے کسی بھی افسر کے عہدے کی جاب ڈسکرپشن کو واضح کرتا اور یہ سب عمومی نہیں بلکہ ہر ضلعے کے مسائل، ماحول، آبادی، روایات اور روزگار کے طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی جاتیں ۔ہر افسر کے اس کی خصوصیات، مہارتوں اور تجربے کے الگ الگ نمبر ہوتے اور انہی نمبروں کی بنیاد پر اس کا چناو کسی بھی پوسٹ کے لئے ہوتا۔ میں نے ابھی محکمہ صحت کی ایک افسر کے ٹیکرز ٹی وی پر چلتے ہوئے دیکھے ہیں، یہ خاتون ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کی بھی ایکسپرٹ بنا کے پیش کی گئیں، پھر یہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی کرتا دھرتا بنیں اور اب وہ محکمہ صحت کا دماغ ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ سپیشلائزیشن کے اس دور میں ایک خاتون ان تمام شعبوں کی ماہر کیسے ہوسکتی ہیں جبکہ ابھی ان کی بہت ساری پوسٹنگز کا میں نے ذکر ہی نہیںکیا۔
میرے ایک سینئر صحافی دوست کہتے ہیں کہ پاکستان کی بری حالت اس وجہ سے ہے کہ ہم نے وزارت عظمیٰ ایک ایسے بندے کے حوالے کر دی جس کے پاس ایڈمنسٹریشن اور خاص طور پر پبلک سیکٹر کی تنظیم سازی کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ پرائیویٹ سیکٹر کی نسبت پبلک سیکٹر کی آرگنائزیشنز کو چلانا زیادہ مشکل کام ہے کیوںکہ پرائیویٹ سیکٹر میں آزادانہ فیصلے لیے جا سکتے ہیں اور کاروبار کے مفاد کا تحفظ اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہاں آپ کا ذاتی فائدہ اور نقصان ہوتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کا چھپن فیصد حصہ ایک دوسرے ناتجربہ کار کے حوالے کر دیا گیا جس کے بعد ہر وزیر اور ہر بیوروکریٹ شتر بے مہار ہے۔ میں اپنے شہر کے بازاروں اور سڑکوں کو دیکھتا ہوں جہاں بدنظمی کی انتہا ہے۔ میں اگر وزیراعلیٰ ہوتا تو فوری طور پر تمام بازاروں میں نمائندہ تاجر تنظیموں کے انتخاب کا قانون بنا دیتا اور اس کے بعد ہر بازار میںپولیس اور بلدیہ ہی نہیں بلکہ تاجر تنظیموں کے تعاون سے اس امر کویقینی بناتا کہ کوئی بھی تاجر اپنی دکان سے باہر کاروبار نہیں کرے گا یعنی وہ کاونٹر ہو یا کچھ اور ، اسے دکان سے باہر نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے ساتھ وہاں پر کاونٹرز اور ریڑھیوں کے لئے جگہوں کی نشاندہی ہوتی جن کا معمولی ہی سہی مگر کرایہ اور رجسٹریشن ہوتی۔ ان تمام ریڑھیوں کے لئے پابندی ہوتی کہ وہ کسی بھی جگہ کسی بھی سڑک کے کنارے وہاں موجود بجلی یا فون کے کھمبے سے پیچھے ہوں گی۔ اسی طرح ہر سڑک پر ییلو لائن ہوتی اور اس امر کی مکمل پابندی ہوتی کہ کوئی بھی گاڑی اس ییلو لائن پر یا اس سے آگے سڑک پر کھڑی نہیں ہوگی اور جو بھی گاڑی ایسے پارک ہو گی اس کا نوپارکنگ پر بھاری جرمانہ ہو گا۔ یہی تاجر تنظیمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ساتھ جہاں ضرورت ہوتی الیکٹریکل وہیکل پارکنگ کی مشینری نصب کرواتیں اور یوں پارکنگ کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا۔ ہمارے بازاروں میں دکانوں کے فرنٹ میں یکسانیت اور خوبصورتی لائی جاتی۔ اس طرح ہم اپنی سڑکوں ، گلیوں پر ایک مہذب قوم کے طور پر نظر آتے۔ یہی تاجر تنظیمیں اپنی اپنی مارکیٹوں میں قیمتوں کے درست رکھنے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی، صفائی اور واش رومز وغیرہ جیسی سہولتوں کی بھی ذمے دار ہوتیں۔
میں اگر وزیراعلیٰ ہوتا تو ہر گلی ، محلے میں درخت یا پودے لگانے کے لئے خصوصی احکامات دیتاتاکہ اس کے نتیجے میں گرد و غبار ختم ہو۔ میں جہاں شہریا انتظامات کے لئے فوری طورپر بااختیار بلدیاتی نظام بناتا وہاں گلی محلوں میں نوجوانوں کی فلاحی تنظیموں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی جو اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لئے کام کرتیں۔ میرے پاس اختیار ہوتا تو میں ایل ڈی اے سمیت تمام شہروں کے ترقیاتی اداروں کو حکم دیتا کہ وہ تمام بڑی اور چھوٹی سڑکوں پر ٹریفک سگنل ختم کر دیں اور آئندہ تمام سڑکیں سگنل فری بنائی جائیں۔ سڑکوں پر چوکوں کی بجائے ان سے چند سو میٹر دور یوٹرن دئیے جائیں جس سے ٹریفک بلاک نہ ہو۔ سکولوں اور دیگر جگہوں پر سنگل لین پارکنگ کی خلاف ورزی پر روزانہ چالان ہوتے اور یوں ہم اپنے شہریوں میں پارکنگ کا شعور پیدا کر دیتے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہمارے عدالتی نظام پر بے پناہ بوجھ ہے اور بہت سارے تنازعات ہیں جنہیں ہم قانونی کی بجائے معاشرتی اور مقامی سطح پر حل کرسکتے ہیں۔ میں جہاں بلدیاتی نظام کو اس سلسلے میں بااختیار رکھتا وہاں مسجد کمیٹیوں کو بھی فعال کرتا اور لوگوں کو موقع دیتا کہ وہ تھانے آنے سے پہلے مقامی مسجد یا بلدیہ کے دفتر میں جا کے اپنے تنازعے کا حل تلاش کریں۔ اس وقت بھی ایشئن ڈیویلپمنٹ بنک کے تعاون سے اے ڈی آر یعنی تنازعات کے حل کے متبادل نظام پر کام ہو رہا ہے مگر وہ سسٹم اپنے طو رپر بھی بہت بڑا ہاتھی ہے، اس نظام اور اختیار کو اسمبلی سے منظورشدہ قوانین اور اس کے ذیلی قوانین طے کر کے مقامی سطح پر لانے کی ضرورت ہے۔میں ایک کام اور کرتا کہ اپنی صوبے کی ہرگاڑی کے لئے ایم ٹیگ لازمی کردیتا اور ہر شہر میں داخلے پروہ گاڑی خودبخود سکین ہوتی جو گاڑیوں کی ملکیت اور ٹیکسیشن ہی نہیں بلکہ سیکورٹی کے بہت سارے مسائل بھی حل کر دیتا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے پولیس، صحت ، تعلیم اور کسی حد تک ٹاون پلاننگ جیسے بنیادی مسائل کو نظرانداز کر دیا، ایسا ہرگز نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کالم کے لئے محدود جگہ پر ان تمام کے حل دینا ممکن ہی نہیں مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ صحت اور تعلیم میں آپ ایک ماسٹر پلان کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں اپنے ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کرنی ہے اور ٹیچنگ ہسپتالوں کے لئے ریفرل سسٹم لانا ہے۔ ہمیں اپنے سرکاری سکولوں کی اہلیت کو پرائیویٹ سکولوں کے برابر لا کے فرق کو ختم کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جن اداروں نے اپنی مہارت اور استعداد سے ڈی ایچ اے وغیرہ کو بہترین بنایا ہے ان کے ماڈل کو کاپی کرتے ہوئے پورے ملک کو ہی شاندار بنایا جا سکتا ہے۔
نوٹ: راقم الحروف کے پاس دوسرے تمام پاکستانیوں کی طرح تمام مسائل کا حل موجود ہے اور اگر متعلقہ اتھارٹیز کو یہ تجاویز پسند آئی ہوں تو وہ اس کالم کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے ایک درخواست کے طور پر بھی زیر غور لا سکتی ہیں، راقم کو ہرگز اعتراض نہیں ہوگا۔ شکریہ
Next Post
تبصرے بند ہیں.