سانحہ مری،قومی بے حسی کا عروج

38

مری میں ہونے والے سانحہ میں جہاں ایک طرف انتظامی نا اہلی کی انتہا تھی وہاں ہم سب کی بے حسی بھی عروج پر دکھائی دی اور یہی ہماری اجتماعی سوچ اور اخلاقیات کی عکاسی کرتی ہے،ہم مری والوں کو کوس رہے ہیں مگر ہم بحیثیت قوم سب ہی مری والے ہیں،بس برف باری ہونے کی دیر ہوتی ہے ۔موت بانٹتی برف کی یخ بستگی میں انسانیت اور احساس بھی منجمد ہو جائے گاایسا مسلمان،پاکستانی ،تعلیم یافتہ، مہذب معاشرے میں سوچنا ہی عبث ہے مگر اس کا کیا کیجئے کہ مملکت خداداد کے دارالحکومت سے تھوڑی مسافت پر ہنستے بستے جیتے جاگتے شہر میں موت ساری رات رقص کناں رہی اور بے حس انسان اس قیامت کے لمحے میں بھی سود و زیاں کی دلدل میں گردن تک دھنسے رہے،اس موقع پر عبرت حاصل کرنے کے بجائے ہم نے خود کو عبرت کا نشان بنا لیا،برف کی صورت مری میں برستی موت کے دوران 23افراد لقمہ اجل نہیں بنے بلکہ ہماری بے حسی کا شکار ہوئے،جواز تراشتے وزراء اور خود کو دلاسے دیتے وہ لوگ جو اس موقع پر وہاں کھڑے موت کا تماشہ دیکھتے رہے سب کو بلکہ اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتنے والی انتظامیہ اور امدادی اداروں کو بھی ان 23افراد کے قتل کا روز محشر جواب دینا ہو گا،اسلام نے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنایا،انسانوں کو ایک قبیلہ قرار دیا،حقوق العباد کو خدائی حقوق کے بعد اہمیت دی،ایک انسان کے قتل نا حق کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کی نوید دی ہے،مگر ہم کس مٹی کے بنے ہیں کہ خدا کا خوف تو قصہ ماضی ہواانسانیت کا احساس بھی لالچ حرص طمع کی قبر میں دفن ہو گیا، مری کی یخ بستگی میں اس احساس نے بھی سرد مہری کی چادر اوڑھ لی۔
وہ کیسا منظر ہو گا؟کیوں وہاں موجود لوگوں کے رونگٹے موت سے لڑتے مدد کیلئے پکارتے افراد کی آہ و بکا پر کھڑے نہ ہوئے؟کیوں ان کے جسم میں خوف خدا سے جھرجھری نہ آئی؟وہاں موجود جیپ ڈرائیور جو لوگوں کو برف سے معاوضہ لیکر نکالتے ہیں، موت سے لڑتے افراد کی زندگی بچانے کیلئے بولیاں لگاتے رہے،ہوٹل والوں نے دو ہزار والے کمروں کا کرایہ 20ہزار کر دیا،ایک نئے شادی شدہ جوڑے کے پاس پیسے کم پڑے تو دلہن کا زیور دینا پڑا ، کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ کئی گنا بڑھا دئیے گئے،یہ تماشا ایسے ملک میں ہو رہا تھا جس کے خدا اور دین نے ان کو منافع خوری،ذخیرہ اندوزی سے روکا ہے،کسی بھی انسان کی مصیبت میں مدد کرنے کو اہم ترین قرار دیا ہے اور اس کیلئے نماز جس کی بروقت ادائیگی کی تلقین ہے بھی قضاء کی جا سکتی ہے،مگر وہاں موجود افراد نماز کو کیا یاد رکھتے وہ تو انسانیت کی اقدار بھی بھول گئے اور موت سے لڑتے لوگوں کی جیب پر نظریں جمائے بیٹھے رہے،جبکہ سیر و تفریح کیلئے آئے ان لوگوں کے پاس معلوم نہیں اتنے پیسے تھے بھی یا نہیں،اگر یہ جیپ والے برف میں پھنسے افراد کو انسانیت کے ناطے بلا معاوضہ منتقل کر دیتے اور ہوٹل انتظامیہ ان کو کمرے مناسب ریٹس پر فراہم کر دیتی تو بہت سی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔
حکومتی زعما کے بیانات پر تو سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے مگر اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات بھی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں،یہ خود طویل عرصہ حکومت میں رہے،ستم یہ کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جو حکومت کے بڑے ناقد ہیں مری ہی کے رہائشی ہیں مگر انہوں نے بھی نہ تو موقع پر جا کر امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا اور نہ اپنے ملازمین کو موقع پر پہنچ کر متاثرین کی مدد کی ہدایت کی حالانکہ ان کے گھر درجنوں ملازمین ہونگے اور کئی گاڑیاں بھی جو برف میں آسانی سے چل سکتی ہیں اور ان کی حویلی میں بھی درجنوں افراد کو رات بھر ٹھہرانے کی گنجائش ہو گی مگر وہ حکومت میں کیڑے نکالتے رہے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرأت نہ کی،گریبان میں تو بحیثیت قوم ہم میں سے ہر فرد کو جھانکنے کی ضرورت ہے،مری میں برف کی موت کا رقص پہلی انہونی نہیں اس سے پہلے بھی ایسے نا گہانی واقعات ہوتے رہے۔
میڈیا پر شور شرابے کے بعد ہوٹل مالکان نے اپنے دروازے کھول دئیے،امدای اشیاء کی تقسیم بھی شروع ہو گئی،برف میں پھنسے افراد کو نکالنے کا آپریشن بھی شروع ہو گیا،مگر جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہواپھر سے وہی لوٹ مار مچا دی گئی،اصل میں اس قسم کے رویے کی ضرورت تب تھی جب لوگ مر رہے تھے،ایک پولیس اے ایس آئی کی بیوی تین بچے بہن بھائی،مردان کے تین کزن اور جانے کتنے تھے جو مدد مدد چلاتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی،سب لالچ طمع،حرص کی بکل میں لپٹے خود کو سردی سے بچاتے اور سرد موت سے نبردآزما لوگوں کے موت کے منہ میں جانے کا تماشا دیکھتے رہے،برف نے پہلے احساس انسانیت کو ڈھانپا اور جب پگھلی تو ہم سب کو برہنہ کر گئی مگر شومئی قسمت کہ ہم اس برہنگی پر شرمسار نہیں بلکہ اب بھی فخریہ جواز تراشتے پھر رہے ہیں۔
اہم بات یہ کہ برفباری کے آغاز سے قبل تمام انتظامات مکمل کیوں نہ کئے گئے، برف باری سیزن سے پہلے تمام ایس او پیز پر کام کیوں نہ ہوا ، سیاحتی ممالک میں برف باری کے موسم سے قبل سڑکوں کی مرمت پہلی ترجیح ہوتی ہے،برف ہٹانے والی مشینری مکمل کی جاتی ہے جس سے حادثات کی شرح میں واضح کمی آتی ہے،لیکن مری کی انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی حفاظتی اقدامات نہ کئے،سوال یہ کہ ان23افراد کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کیا مستقبل میں ایسے ناگہانی مگر المناک واقعات سے بچنے کی کوئی سبیل بروئے کار لائی جا رہی ہیں؟اب موت کی ذمہ داری کاربن مونو آکسائیڈ پر ڈالیں،حکومت پر،یا سیر و تفریح کیلئے آنے والے سیاحوں پر،مقامی انتظامیہ کو الزام دیا جائے یا ماضی کی حکومتوں کو،سچ یہ کہ اس صورتحال اور 23افراد کے قتل کی ذمہ دار پوری قوم ہے،خاص طور پر وہ لوگ جو مری کے رہائشی ہیں اور جو وہاں کاروبار کرتے ہیں ،موت سے لڑتے لوگوں کو بچانے کیلئے گھروں سے نکلنے کے بجائے انہوں نے اپنے گھروں کے گرم کمروں میں بیٹھے رہنے میں عافیت جانی۔انتظامی افسران بھی آگ تاپتے رہے، مری کا سانحہ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے سامنے آیا مگر ایک قدرت کا نظام ہے وہ حرکت میں آیا تو پھر کوئی مدعی ہو گا نہ وکیل اور نہ منصف ہو گا،پھر فیصلہ بھی دست قدرت کرے گا۔
حرف آخر ،اس سارے معاملے میں وزیر اعلیٰ ، چیف سیکرٹری،سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نظر توآئے مگر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور سیاحت کے وزیر کون ہیں،اس کا کسی کو پتہ ہی نہیں ،نہ وہ کہیں نظر آ رہے ہیں،ان کو تو وہاں کیمپ لگا کے بیٹھ جانا چاہئے تھا تاکہ لوگوں کا مری اور سیاحت پر اعتماد بحال ہو۔

تبصرے بند ہیں.