بلدیاتی نظام اور ہمارا ملک

38

بلدیاتی نظام جمہوری طرز عمل کی بنیاد ہوتا ہے اور ایک بلدیاتی نمائندہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور اس ہی کے ذریعے یہ عوامی مسائل کا فوری اور پائیدار حل ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر عوامی مسائل کے حل اس بنیادی اکائی کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے ہیں مگر ماضی کے حالات پر نظر ڈالیں تو ایک ایسا بھی وقت ہے جب پیپلز پارٹی کو مخلوط حکومت اور اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے تمام تر دعوؤں کے باوجود بلدیاتی انتخابات کروانے میں ناکام رہی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ سندھ کی صورتحال بدتر ہوگئی تھی۔
اگر ہم بات کریں پنجاب کی تو ماضی میں جب نون لیگ کی حکومت تھی تو نون لیگ کے دور میں بھی بلدیاتی نمائندے پریشان ہیں دکھائی دیئے تھے کیوں کہ جب ان سے گفتگو کی جاتی تھیں تو ان کا ایک ہی حکومت سے شکوہ دکھائی دیتا تھا کہ حکومت ماہانہ تین لاکھ کے علاوہ کچھ نہیں دے رہی اور جن حلقوں کے ایم پی اے اور ایم این اے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے ساتھ تعاون کر کے چلتے تھے تو وہ بلدیاتی نمائندہ بہت خوش دکھائی دیتے تھے مگر جن کے ایم این اے اور ایم پی اے بلدیاتی نمائندے سے تعاون نہیں کرتے تھے ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اور وہ بلدیاتی نمائندے مشکلات کا ہی سامنا کرتے رہے۔
اگر ہم بلدیاتی نظام پر تھوڑا غور کریں تو بلدیاتی نمائندے ایک یونین کونسل کی ڈیٹ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے اسی کے منہ پر اس کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے اور ایم پی اے کو حلقے کی عوام ووٹ ڈالنے پر رضا مند ہوتی ہے حقیقی معنوں میں بلدیاتی نمائندے کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ چیئرمین وائس چیئرمین اور کونسلر عوام کے سامنے اپنے پارٹی کی نمائندگی کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ یہی لوگ ہوتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ نظام بہت کمزور رہا ہے جبکہ ہماری حکومتوں کو اپنی پارٹی کے ووٹ مضبوط کرنے کے لیے اس نظام پر خاصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایک ایم این اے اور ایم پی اے کے پاس اتنا وقت درکار نہیں ہوتا کہ وہ حلقے کی ایک ایک گلی کا وزٹ کرے اور عوام سے ملاقات کرکے ان کے مسائل پوچھے مگر یہ کام ایک بلدیاتی نمائندہ ہی کرتا ہے جو اپنی پارٹی کی بطور چیئرمین وائس چیئرمین یونین کونسل بن کر عوام کے آگے نمائندگی کر رہا ہوتا ہے اپنی پارٹی کا نام روشن کرنے کے لیے عوامی مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروا رہا ہوتا ہے۔
اگر کسی حکومت نے اپنی پارٹی کو مضبوط بنانا ہے تو اسے اپنے بلدیاتی نمائندوں کو مضبوط رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ایک بلدیاتی نمائندہ ہیں اپنی پارٹی کو ووٹ دلانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اگر ہم ماضی کے دور کی بات کریں تو مسلم لیگ نون نے شروع میں تو نہیں مگر بعد میں بلدیاتی نمائندوں کو مضبوط کرنے کی بہت کوشش کی مگر شاید بہت دیر ہو چکی تھی اور جہاں تک میں سمجھتی ہو پنجاب میں مسلم لیگ نون کی ناکامی کا باعث بھی یہی چیز بنی۔
اور اگر موجودہ حکومت کی بات کریں تو ان کا تو ماشاء اللہ سے پرسان حال ہی نہیں ہے باقی چیزوں کی طرح انہوں نے بلدیاتی نمائندوں کی بحالی کو تو روک دیا مگر یہ باتیں بھی سننے کو ملی کہ موجودہ حکومت تو بلدیاتی نمائندوں سے ڈرتی ہی بہت ہے خدا جانے کہ موجودہ حکومت کو بلدیاتی نمائندوں سے کیاڈر ہوسکتا ہے؟کہیں یہ خوف تو نہیں کہ وہ اپنی پارٹی کو ایک حلقے میں مضبوط بنا دیں گے۔
جب الیکشن آنے والے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بلدیاتی نمائندوں کو ایکٹیو کر دیا جائے مگر آج کے دور بات کریں ہم تو بہت سے بلدیاتی نمائندے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کسی بھی وقت یوٹرن لے سکتی ہے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں اگر بلدیاتی نمائندے اور پوزیشن کے اگر اپنی پارٹی کو اپنی یونین کونسل اور اپنے علاقے میں اگر مضبوط کر گئے تو حکومت کا کیا بنے گا کسی طرح اگر یونین کونسل میں بلدیاتی نمائندہ اپنی پارٹی کو مضبوط کرتا چلا گیا تو عام انتخابات میں موجودہ حکومت کو بہت بآسانی شکست ہو جائے گی۔
بلدیاتی نظام دراصل ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرف عوامی مسائل کے فوری حل کے لیے تشکیل دیا گیا نظام ہے تاہم پاکستان میں اس نظام کو ہمارے ماضی کے فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور اپنی مرضی کے نمائندے مسلط کرنے کے لئے بڑی حد تک استعمال بھی کیا ہے جیسا کہ جنرل ایوب خان نے 1959جنرل ضیاء الحق نے 1979ء اور جنرل پرویز مشرف نے 2000 میں بلدیاتی نظام متعارف کروائے۔
جنرل پرویز مشرف نے گرچہ ضلعی حکومتوں کے نظام کے ذریعے ناظمین اور نائب ناظمین کو اختیارات دیے تھے تاہم وہ بیوروکریسی کے طاقتور رکاوٹ کو بالکل نظر انداز کرتے رہے جس نے اس نظام کو حقیقی مقاصد کے حصول میں قطعی ناکام بنادیا تھا۔بلدیاتی نظام نہ صرف نچلی سطح تک لوگوں کو اختیارات کی منتقلی کا بہترین طریق کار ہے بلکہ یہ مسائل کے فوری حل نئی سیاسی قیادت کو سامنے لانے اور حکومتی فیصلوں میں عوامی شمولیت اور فوری انصاف کی فراہمی کا سبب بنتا ہے۔
اگر کسی پارٹی نے ملک میں اپنے قدم مضبوط رکھنے ہیں تو میرے خیال سے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے دور حکومت میں بلدیاتی نظام کو مضبوط کریں اور ڈور ٹو ڈور کی خدمت کرنے کے لئے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دے جس سے بلدیاتی نمائندہ بھی خوش ہوگا اور عوامی مسائل حل ہونے سے حکومت کے آئندہ انتخابات میں جیتنے کے چانسز بھی قائم ہی نہیں بلکہ بڑھیں گے..

تبصرے بند ہیں.