معیشت تباہی کے دہانے پر

82

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے آج تک جمہوریت کے ٹھیکے داروں میں سے کبھی کسی نے پاکستان کو ترقی یافتہ صف میں لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ تو بس ایک دوسرے کی خامیاں نکالنے میں ہی وقت پورا کر دیتے ہیں ۔اسمبلی ہو یا ٹی وی ٹاک شو ہر جگہ ایک دوسرے کو صرف چور چور کہنے کی ہی آوازیں سُنائی دے رہی ہوتی ہیں۔کالم میں آگے کچھ بیان کرنے سے پہلے میں اپنے قارئین کو کچھ بتانا چاہوں گی کسی بھی ملک میں سٹیٹ بینک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔میں آسان لفظوں میں قارئین کو سمجھانا چاہوں گی کہ ا گر ایک انسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ اپاہج ہو جاتا ہے اسی طرح سٹیٹ بینک کو گروی رکھ دیا جائے تو ملک اپاہج ہو جائے وہ کیسے میں اب آپ کو اس بارے میں بتائوں گی۔
ایک بات میں اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے گوش گزار کرنا چاہوں گی کہ جب سٹیٹ بینک کی قائداعظم محمد علی جناح نے بنیاد رکھی تواُس وقت اُنہوں نے فرمایا تھا کہ سٹیٹ بینک ہماری قومی خودمختاری کی علامت ہے اور ہم اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے ایک سنگین شرط جو پوری کی جا رہی ہے وہ سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء حکومت ،پاکستان کی خودمختاری کو گروی رکھ رہی ہے؟ سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دو ہزار اکیس ایک مسودہ قانون منظر عام پر آیا ہے۔اس مسودے میں کیا کیا ہے ؟اگر ایسا ہوا تو اُس کے حکومت پاکستان پر اورعام عوام پر کیا کیا اثرات ہونگے؟ کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے انڈر کام نہیں کرے گا اگر حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرط مان لی تو پھر سٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کے انڈر کام کرے گا۔
اب بات کرونگی کہ سٹیٹ بینک کے موجودہ قانون کے مطابق اب کنڈیشن کیا ہے اور جب وہ آئی ایم ایف کے انڈر چلا جائے گا پھر وہ کیسے پاکستان کے ساتھ ٹریٹ کرے گا۔پاکستان کو جب بھی کسی جگہ پر ضرورت پڑتی ہے پیسے کی یا کوئی پروجیکٹ یا ترقیاتی کام شروع کرنے ہوتے ہیں یا ہمارے ایم پی ایز یا ایم این ایز کو جو ترقیاتی فنڈز جاری ہوتے ہیں وہ فنڈ بھی سٹیٹ بینک سے ملتے ہیں اور اُس کی منظوری وزیراعظم اپنے دستخط کے ساتھ دیتے ہیں اور سٹیٹ بینک پابند ہوتا ہے فنڈز دینے کا۔مگر جب یہ آئی ایم ایف کے انڈر جائے گا تو پھر وزیر اعظم کی بھی بات نہیں سُنے گا پھر وہ
ڈائریکٹر آئی ایم ایف سے ڈائریکشن لے گا۔اگر ڈائریکٹر فنڈ کا کہے گا تو فنڈ جاری ہوگا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کوئی پیسہ ادھار نہیں دے گا وہ تب اُدھار بھی دے گا جب اُس کی ڈائریکشن آئی یم ایف دے گا اور وہ بھی ایک خاص مدت کے لئے۔
اس میں ایک بات نہایت خوفناک ہے جس کو بالکل ہائی لائٹ نہیں کیا جا رہا۔ وہ یہ جب سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر مائنس میں جانے لگے یا جا چُکے ہونگے تو حکومت پاکستان اُس مائنس شدہ رقم کو فوری طور سٹیٹ بینک کو جمع کرانے کی پابند ہو گی۔ ’’خوفناک‘‘ کیوں کہ اُس حالت میں حکومت پاکستان کو پرائیویٹ بینکوں سے زیادہ سود پر قرض لے کر سٹیٹ بینک کو دینا پڑے گا تاکہ سٹیٹ بینک مائنس سے نکل جائے۔ اُس کنڈیشن میں حکومت کو کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینا پڑیں گے اور 80فیصد سے زائد بینکنگ سیکٹر کی ملکیت غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہیں ایک طرف حکومت قرض اُتارنے پہ لگی ہو گی اور دوسری طرف حکومت مزید قرض لینے پہ مجبور ہو گی۔ اُن شرائط میں سے ایک شق گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق 5سال ہو گی اس دوران وزیراعظم پاکستان بھی ہٹا نہ سکیں گے۔ اب اس وقت حکومت پاکستان چاہ رہی ہے کہ اس کو ہٹانے کا اختیار صدر پاکستان کے پاس چلا جائے۔ وہ بھی ان کو اپنی مرضی سے ہٹا نہیں سکیں گے اُس صورت میں کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں تب اُسے ہٹا سکے گے کہ اگر اُس پہ الزامات سنگین قسم کے ہوں۔
سٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے کسی بھی قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہونگے۔ ایف بی آر، نیب سمیت دیگر کوئی بھی ادارہ سٹیٹ بینک کے معاملات یا سٹیٹ بینک سے کسی بھی طرح کی رپورٹ مانگنا تو دور کی بات کسی بھی طرح کے سوال جواب نہیں کر سکے گا۔ سٹیٹ بینک میں داخلی احتساب کا نظام ہو گا، نیب اُس میں دخل نہیں دے گی۔ موجودہ قانون کے مطابق، دیہی علاقوں، صنعتی شعبوں، ہاؤسنگ اور دوسرے شعبوں کے لیے سٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے مگر ترامیم کے بعد ان تمام کاموں کے لیے سٹیٹ بینک سے قرض دینے کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔
حکومت یہ راگ الاپ رہی ہے کہ کرونا کے بعد مہنگائی کے اثرات عالمی سطح پر پڑے۔ مان لیا ہم نے کہ مہنگائی بوجہ کرونا ہے اب تھوڑا جائزہ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے کرونا کے بعد کیا کیا۔ آپ امریکہ کی ہی مثال لے لیجیے کرونا آیا تو امریکہ نے بھی 30% بلاسود 20سال کے لیے انڈسٹری کے لیے قرض دیا تاکہ انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے۔ مگر ہمارے پاکستان میں لنگر خانے، پناہ گاہیں، احساس پروگرام پہ زور دیا گیا۔ ان پہ بے دریغ پیسوں کا زیاں کیا گیا۔ موازنہ کیجیے ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی اور ایک ہمارے ملک کے فیصلے تو کیسے ملک ترقی کر سکتا ہے۔ حکومت پاکستان سٹیٹ بینک کے بغیر چل ہی نہیں سکتا، سرکاری محکموں کی تنخواہوں کا بڑا حصہ سٹیٹ بینک کی طرف سے آتا ہے اب اگر کسی سٹیج پہ سٹیٹ بینک تنخواہوں کے لیے رقم نہیں دیتا تو حکومت پاکستان کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پرائیویٹ بینکوں سے قرض لینا پڑے گا۔
مزید سب سے اہم اور خطر ناک بات کہ موجودہ قانون کے تحت حکومت پاکستان سٹیٹ بینک کو حکم دیتی ہے کہ اتنے ارب چھاپنے ہیں اور وہ نوٹ چھاپ دیتے ہیں مگر پھر یہ آئی اہم ایف کے کہنے پہ کرنسی چھپے گی۔ پاکستانی حکمرانوں سمیت پاکستانی قوم اتنی بے بس ہو جائے گی جس کا آپ کو بھی اندازہ نہیں ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.