کہیں محل ہے تو کہیں جھونپڑی

28

چند روز پہلے ڈیل ڈھیل کی افواہیں پھیلنے کے بعد اب سمٹ چکی ہیں لہٰذا سیاست کے سمندر میں جو بے تاب لہریں ابھر رہی تھیں، نیچے بیٹھ گئی ہیں جس کا مطلب ہے یہ حکومت اپنے پانچ برس پورے کرے گی اور پھر یہ ڈالر اڑھائی سو روپے تک پہنچ جائے گا۔ گھی، دال، آٹا اور چینی کی قیمتیں اتنا اوپر جائیں گی کہ غریب عوام کو اپنے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہو گی۔
ہم سوچ رہے تھے کہ اْجڑے باغوں میں بہار آئے گی تو نئے شگوفے نکلیں گے، کلیاں چٹکیں گی۔ ان پر رنگ برنگی تتلیاں اڑتی پھریں گی۔ فاختائیں امن کے گیت گائیں گی اور بلبلیں چہکتی پھریں گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔
خزاں نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ درختوں پر زردی چھا گئی اور چرند پرند سہم گئے۔ جی ہاں! اب وہ خواب اور وہ خیال سب بکھر چکے ہیں کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے کمال کر دکھایا۔
سب کچھ وہ کیا جو لوگ نہیں چاہتے تھے اور وہ کیا، جو عالمی مالیاتی ادارتی چاہتے تھے کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ عوام کا کیا قصور ہے جنہیں ٹیکسوں کی چکی میں پیسا جا رہا ہے اور بپھرے ہوئے مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
کوئی کام بھی کرنا ہو اس کا ایک طریقہ ہوتا ہے یہاں تو کوئی طریقہ کوئی کلیہ اور کوئی فارمولا ہی نہیں بس دھکے شاہی ہیاور جب کوئی عوامی ردعمل سامنے آئے تو اسے سختی سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ تو نا انصافی ہے۔
ایک طرف امیر طبقہ دوسری جانب روکھی سوکھی کھانے والے! کہیں محل ہے تو کہیں جھونپڑی، کہیں روشنیوں کا سیلاب اور کہیں گھپ اندھیرے!
یہ ہے اس سماج کی تصویر!
ہم ایک عرصے سے پوچھ رہے ہیں اہل اقتدار سے کہ یہ سب کیا ہے مگر وہ خاموش ہیں کچھ نہیں بتا رہے چپ رہنے کو کہہ رہے ہیں۔
ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے کہ اب قرضوں کے شکنجے میں جان پھنس چکی ہے۔
لوٹا کھایا اہل اختیار نے خزانہ خالی کیا حکمرانوں نے مگر مصائب کی یلغار کا سامنا غریبوں اور محکوموں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے یہ کہاں کی حکمت عملی ہے اور یہ کہاں کی دانائی ہے؟
کچھ تو ترس کھاؤ کچھ تو سوچو آخر غریب بھی انسان ہیں اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ انہیں سکون دو آسانیاں فراہم کرو اور انہیں پریشانیوں سے چھٹکارا دلاؤ۔
ایسا ذہن مگر کہاں، یہ تو دیدہ دانستہ اپنے پیٹ بھرے جا رہے ہیں پھر یہ تو قع کرتے ہیں کہ کوئی آواز نہ بلند کرے کوئی شکوہ نہ کرے کسی کو یہ حق حاصل نہیں سارے حقوق صرف اشرافیہ کے لیے ہیں وہی حقدار ہے حکمرانی کی۔ اسے ہی بڑے گھروں میں اربوں کھربوں میں جینا ہے۔ ان کا مقدر بہاریں ہیں خزاؤں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔
تمہارا یہ سوچنا جائز نہیں اپنے اصول بدلو !
اپنی سوچ بدلو!
بہت سے تم ایسے اسی طرح ہی سوچتے رہے مگر پھر سب کچھ بدل گیا!
کب تک یہ بے چارے لوگ ظلم و جبر کی فضا میں سانس لیں گے
کب تک انہیں قابو میں رکھا جائے گا ؟
آخر کار یہ سارے مل کر نعرہ مستانہ بلند کر دیں گے پھر ایک نیا جہان آباد ہو گا جس میں زندگی کے تمام رنگ ہوں گے کوئی جبر نہیں ہو گا مساوات کا علم لہرا رہا ہو گا یہ کیسا قانون ہے کہ عوام کے نام پر دولت کدوں سے دولت حاصل کی جائے مگر ان پر خرچ نہ کی جائے اور اپنی تجوریوں میں ٹھونس لی جائے۔
یہ دھوکا ہے جس سے اب اجتناب برتنا لازم ہو چکا کیونکہ حالات بدل چکے ہیں۔ لوگ سمجھ گئے ہیں انہیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ حکمران انہیں ہمیشہ اندھیرے میں رکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے جو بھی کہا اس پر کبھی عمل نہ کیاوہ عالمی ساہو کاروں کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہے، انہیں اقتدار کی رنگینیوں میں کھو جانا مقصود تھا سو وہ اس کے لیے ان کی ہر شرط مانتے رہے۔اب تک یہی کچھ کرنے سے زندگی ہر کسی کی اس پر ایک بوجھ بن گئی۔ وہ بلک رہا ہے سسک رہا ہے اور تڑپ رہا ہے مگر کوئی نہیں جو اس کی طرف متوجہ ہو۔ سبھی اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں ایک دوسرے کو چکرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے بدگمانی کا احساس گہرا ہوتا جارہا ہے مگر افسوس صد افسوس اقتدار تک پہنچنے کے لیے روپ بدلے جا رہے ہیں۔ یہ بہروپیے بڑے سنگ دل ہیں محکوموں کی آہیں سنتے ہی نہیں ان کی جانب تکتے ہی نہیں۔
یہ تو ایک طرف اْن دانشوروں کو کیا ہو گیا جو انہیں پوتر ثابت کرنے کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں ان کی مدح سرائی صبح شام کر رہے ہیں مگر نہیں ،انہیں بھی جینا ہے کچھ تو کرنا ہی ہے۔
یہ سر پھرے ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیتے ہیں مگر انہیں یہ سماج ٹھکرا دیتا ہے۔ یہ کیسا دستور ہے یہ کیسا شعور ہے کہ جو کسی کا بھلا چاہے اسے دھتکار دیا جائے۔ بہرحال بقول منو بھائی
اسیں وچارے بوڑھاں تھلے اْگن والی گھاہ دے تیلے
تْپ تے مینہ نوں ترس گئے آں لکھ کروڑ دا کی کہناں دس تے وی نوں ترس گئے آں
جناب وزیراعظم ! یہ ’’گھاہ دے تیلے‘‘ رْل گئے ہیں وہ دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں اس بوجھ سے نجات دلائی جائے جو اشرافیہ نے ان پر ڈال دیا ہے۔ وہ باعزت طور سے جینا چاہتے ہیں اور یہ وہی ہیں جو ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے آئے ہیں مگر اب انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا گیا ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ذلتوں کے مارے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اپنے گھروں کی دہلیز یں پار کر ڈالیں اور شاہراہوں پر آن کھڑے ہوں پھر منظر بدل جائیں گے پس منظر بدل جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.