پچاس پچپن سال قبل کے لاہور کی یادیں اور باتیں…!

98

پچھلی صدی کے چھٹے عشرے کے آخری برسوں (ستمبر 1967 تا جون 1968) کے دوران سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے جہاں بی ایڈ کی ڈگری لینے کا موقع ملا وہاں لاہور کی مجلسی ، معاشرتی ، تہذیبی ، علمی اور دینی مجلسوں اور شخصیات سے بھی فیض یاب ہونے اور ان سے متعلقہ مقامات اور جگہوں سے روشناس ہونے کے کچھ نہ کچھ مواقع ضرور ملے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جماعت اسلامی پاکستان کے بانی امیر سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ(لاہور میں اپنی موجودگی کے دوران) اندرون لاہور مسجد مبارک قلعہ گجر سنگھ میں ہر اتوار کو درس قرآن کی مجلس سے خطاب کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ اپنی رہائش گاہ 5ذیلدار پارک اچھرہ میں ہر روز عصر کی نماز کے بعد شام کی مجلس میں بھی شریک ہوا کرتے اور سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے۔مجھے مسجد مبارک میں مولانا کی درس قرآن کی مجلسوں میں ایک یا دوبار جانے کا موقع ملا تو اچھرہ میں بھی مولانا مرحوم کی نماز عصر کے بعد کی مجلسوں میں بھی ایک سے زائد بار حاضر ہونے کے مواقع بھی ملے۔ مولانا مرحوم کا پروقار اور خوب صورت سراپا ، ان کی سفید براق داڑھی اور ان کے پر اثر اورعالمانہ انداز تخاطب اور حاضرین و سامعین کے سوالوں کے شافعی اور آسان لفظوں میں جواب دینے کا انداز اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ذہن میں نقش ہے۔ اچھرہ کی شام کی مجلس مولانا کی رہائش گاہ اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر 5ذیلدار پارک اچھرہ کے لان میں نماز عصر کے بعدمنعقد ہوا کرتی تھی۔ حاضرین و سامعین نماز کے بعد چٹائیوں پر بیٹھے رہتے ، حضرت مولانا سامنے فروکش ہوتے۔ کسی بھی موضوع پر (علمی ، دینی یا سیاسی ہونے کی کوئی قید نہیں تھی)۔ گفتگو شروع ہوجاتی ۔ حاضرین وسامعین سوال کرتے، مولانا ان کے جواب دیتے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے بھی اس مجلس میں ایک بار سوال کیا تھا۔ میرے انداز میں اپنے دیہاتی پن اورپینڈو پس منظر کی وجہ سے شاید کچھ اکھڑ پن تھا۔ جسے حاضرین و سامعین نے پسند نہیں کیا تھا۔ لیکن مولانا مرحوم نے بڑی مروت سے اس کا تسلی بخش جواب دیا۔
تقریبا ً پچپن ساٹھ سال قبل بی ایڈ کی تعلیم کے دوران قیام لاہور کی یادوں کو کریدوں تو کیا مزے مزے کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ لاہور کی میکلوڈ روڈ پر لکشمی چوک اپنے سینما ہائوسزاور فلموں کی پروڈکشن اور ریلیز کے آفسز کی وجہ سے کافی معروف جگہ تھی (آج کل شاید ایسا نہیں ہے) اس دور میں پاکستان کی فلمی صنعت اپنے پورے جوبن پر تھیں اور فلموںکے انتہائی خوب صورت اور اس دور کے معروف فلمی جوڑے محمد علی اور زیبا کا طوطی بولتا تھا۔ سچی بات ہے مجھے بھی اس فلمی جوڑے کی اداکاری پسند تھی۔ میں نے علی زیب پروڈکشنز کے تحت اس جوڑے پر فلمائی گئی کئی فلمیں یہاں دیکھی ہونگی۔ ان میں "آگ”، "دل دیا درد لیا” اور "جیسے جانتے نہیں "وغیرہ
فلموں کے نام اب یادپڑتے ہیں۔ لکشمی چوک بہت پر رونق جگہ ہوا کرتی تھی۔ یہاں ریڑھیوں پر ٹکاٹک اور چھوٹے گوشت کی چانپیں وغیرہ کھانے کو مل جایا کرتی تھیں۔ کئی بار شاید ان سے لطف اندوز ہونے کے بھی مواقع ملے۔
میری ان دنوں بڑی خواہش تھی کہ میں کسی طرح واہگہ ، ہڈیارہ یا برکی کی طرف سے پاک بھارت سرحد کو دیکھنے جائوں ۔ میری خوش نصیبی کے بی ایڈ میں میرے ایک ہم جماعت کا تعلق بی آر بی نہر کے پار کے کسی سرحد ی گائوں سے تھا۔ میں ان کا اوران کے چھوٹے سے گائوں کا نام بھول رہا ہوں، ان کی مہربانی کہ وہ مجھے اور دوسرے دو تین ساتھیوں کو اپنے گائوں لے گئے۔ بی آر بی نہر کے اس طرف سفر کرتے ہوئے مجھے ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ کے واقعات یا د آرہے تھے تو وہاں بھارتی ٹینکوں کے کچھ ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے اور چین وغیرہ بھی ادھر ادھر بکھرے پڑے نظر آئے۔ ہم سرحد تک گئے ۔ خار دار تاروں کی باڑ کے اس طرف اور اس طرف آٹھ دس فٹ کی چوڑی پٹی نو مین لینڈ (No Man Land)کہلاتی تھی۔ اس سے پرے بھارتی علاقے میں سکھ لڑکے اور نوجوان اپنے مویشی چرا رہے تھے۔
لاہور میں قیام کے دوران شالا مار باغ اور اس کے باہر میلہ چراغاں کو دیکھنا اور وہاں دکانوں پر بنائی جانے والی مخصوص مٹھائیو ںاور جلیبی وغیرہ سے لطف اندوز ہونا بھی مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ شاہدرہ میں راوی کے پل کے پار مقبرہ جہانگیر میں کالج کے زیر اہتمام سالانہ تفریحی پروگرام بھی کافی پر کشش اور مدتوں تک یاد رہنے والا تھا۔ اس سے قبل دریائے راوی میں ساتھیوں کے ساتھ کشتی رانی اور راوی کے پار بیلے (سرکنڈوں کے جھنڈ)میں کامران کی بارہ دری تک کشتی کے ذریعے جانا بھی بڑی کشش کاباعث تھا۔ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے چار بیٹے تھے۔ ہمایوں ، عسکری، کامران اور ہندال۔ بابر کی وفات کے بعد ہمایوں بادشاہ بنا تو کامران کو لاہور کا گورنر بنا کر یہ علاقہ اس کی حکمرانی میں دے دیا۔ کامران نے دریا ئے راوی کے کنارے اس دور میں یہ عمارت یعنی بارہ دری تعمیر کرائی۔ ہمایوں کے بعد اس کا بیٹا اکبر بادشاہ بنا تو ایک سے زائد بار ایسے مواقع آئے جب اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم (جو بعد میں جہانگیر کے نام سے مغل شہنشاہ بنا) نے اپنے باپ اکبر کے خلاف بغاوت کی۔ ایک ایسی ہی بغاوت میں شہزادہ سلیم گرفتار ہوا اور اسے کامران کی بارہ دری میں پابہ جولان اپنے باپ شہنشاہ اکبر کے سامنے پیش کیا گیا۔ اکبر شہزادہ سلیم کی عیش پسندی کی وجہ سے چاہتا تھا کہ اپنے پوتے شہزادہ سلیم کے بیٹے شہزادہ خسرو کو اپنے بعد ولی عہد مقرر کرے۔ لیکن شہزادہ سلیم کی والدہ مہارانی جودھا بائی نے جو راجپوتانہ کی ایک ریاست کے حکمران ہندو راجپوت خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس نے اکبر کو یہ فیصلہ کرنے سے باز رکھا۔
لاہور کی اس دور کی باتوں کا ذکر چلا ہے تو ایک دو اور باتوں کے حوالے بھی آسکتے ہیں۔ بی ایڈ کی ٹیچرز ٹریننگ ہو یا تربیت اساتذہ کا کوئی اور کورس ہو ان میں اساتذ ہ کی ٹیچنگ کی کم از کم چار ہفتوں کی فزیکل ٹیچنگ ضروری ہوتی ہے۔ جس کے اختتام پر نمونے کے دو اسباق بھی پڑھانے ضروری ہوتے ہیں۔ مجھے چار ہفتوں کی فزیکل ٹیچرز ٹریننگ کے لیے گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول وحدت کالونی لاہور میں متعین کیا گیا۔اس دور وحدت کالونی لاہور کا ایک دورآفتادہ حصہ شمار ہوتا تھا۔ اس سے کچھ آگے پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس کی عمارات زیر تعمیر تھیں ورنہ دور دور تک غیر آباد اور بنجر زمین اور کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ وحدت کالونی کے قریب ہی موجود علامہ اقبال ٹائون کی وسیع و عریض رہائشی سکیم ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب لاہور میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی اومنی بس سروس (لوکل ٹرانسپورٹ سروس) کی بسیں چلا کرتی تھیں۔ ان میں بڑی تعداد میں ڈبل ڈیکر (دو منزلہ) بسیں بھی شامل تھیں۔ میری خوش قسمتی کہ سنٹرل ٹریننگ کالج سے کچھ ہی فاصلے تقریباً تین چار فرلانگ کے فاصلے پر واقع ایم اے او کالج کے باہر پرہجوم بس سٹاپ سے وحدت کالونی تک بسیں مل جایا کرتی تھیں۔ وحدت کالونی تک کرایہ بھی انتہائی معمولی 25یا 37پیسے ہوا کرتا تھا۔ میں اکثر ڈبل ڈیکر بس کی اوپر والی منزل پر سفر کو ترجیح دیتاتھا۔ چلتی بسوں میں بیٹھے آس پاس کے علاقے میری نگاہوں کے سامنے ہوتے۔ چو برجی ، گارڈن ٹائون ، اچھرہ کی پرہجوم سٹرک ، رحمان پورہ کی آبادی اوراس سے آگے فیروز پور روڈ پر جامعہ اشرفیہ کی نو تعمیر کردہ عمارت کے سامنے گزرتے ہوئے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے بعد گورنمنٹ پائلٹ سکینڈری سکول وحدت کالونی کے بس سٹاپ پر پہنچ جاتے۔ بس سٹاپ پر مسافروں کے کھڑے ہونے یا بیٹھنے کا کا اچھا اہتمام نہیں تھا۔ ایک دو درخت تھے جن کے ادھورے سایے میں مئی جون کی تپتی دوپہروں میں واپسی کے سفر کے لیے بس کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ وحدت کالونی مغربی پاکستان حکومت (موجودہ پنجاب حکومت) کے سرکاری ملازمین کی رہائشی کالونی تھی۔ پائلٹ سکینڈری سکول میں بھی زیادہ تر انہی ملازمین کے بچے زیرتعلیم تھے ۔ یہ مہذب ضرور تھے لیکن کچھ بے باک اور نڈر بھی تھے اوران کو پڑھانا اتنا آسان نہیں تھا لیکن یہ فریضہ بہرکیف ادا کرنا ضروری تھا۔ جون میں امتحانا ت کا اختتام ہوا تو واپس پنڈی کو مراجعت ہوئی اور فرائض منصبی کے ادائیگی کے لیے ایک بار پھر اپنے پرانے سکول میں حاضری دینا پڑی جہاں سے ایک آدھ سال بعد اللہ کریم کے فضل و کرم سے ترقی پا کر میری تقرری بطور سینئر ماسٹر سی بی سر سید سکول و سائنس کالج میں ہوگئی جہاں زندگی کا کم و بیش ایک ربع صدی پر پھیلا ہوا طویل عرصہ درس و تدریس میں گزرا۔

تبصرے بند ہیں.