امن کا پیغام کیوں ضروری ہے

84

کچھ عرصہ پہلے مذہبی امور کے وفاقی وزیر سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں چند اور کالم نگار بھی شریک تھے۔اگرچہ یہ ملاقات کرتار پور کوریڈور کے حوالے سے تھی مگر پیر ڈاکٹر نور الحق قادری کی گفتگو کا مرکز اور محور بین المذاہب ہم آہنگی تھی۔ ان کی باتوں میں پیغام محبت بول رہا تھا۔ان کے نزدیک اس وقت اہم ترین بات یہ ہے کہ ہمیں ملکی سطح پر یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم اقلیتوں کے معاملے میں بڑے کشادہ دل کے مالک ہیں اور ہمارے ہاں اقلیتیں نہ صرف اپنی عبادات کے سلسلے میں آزاد ہے بلکہ اپنی ثقافتی سرگرمیوں میں بھی آزاد ہیں۔ صاحبزادہ نورالحق قادری نے بڑے واضح الفاظ میں بتایا کہ ہمارا مذہب اسلام بھی محبت کا درس دیتا ہے، دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے۔ مدینہ منورہ میں بھی اقلیتوں کا ناصرف احترام تھا بلکہ وہ دیگر امور میں بھی شامل ہوتے تھے۔ دو روز بیشتر میں ایرانی قونصل خانے میں امت مسلمہ کی وحدت کے حوالے سے ایک کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں کے علماء کرام کے خیالات سننے کا موقع ملا اور مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع ملا، اس وقت مجھے نورالحق قادری کی باتیں باربار یاد آ رہی تھیں کہ اسلام تو محبت کا درس دیتا ہے اسلام تو امن کا پیغام دیتا ہے۔ مگر اس وقت حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں میں آپس میں بھی اتحاد
ہو، وہ ایک ہوں۔ ایران کے رہبر سید علی خامنہ ای عرصہ دراز سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ امت مسلمہ ایک نظر آئے۔ اس مقصد کے لئے وہ ہر سال تہران میں ایک کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں۔ پچھلے دو برس سے اس کانفرنس میں دنیا بھر سے شرکت کرنے والے افراد آن لائن شریک ہوتے رہے ہیں۔ اب امت کی وحدت کے لیے ایسی کانفرنسوں کا انعقاد ایران کے مختلف کونسل خانوں میں کیا جا رہا ہے۔ ایسی کانفرنسوں کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ فرقہ پرستی کی آگ سے نکل کر ایک ہو جائے، مسلمانوں کا اتحاد ہی آج کے دور میں انہیں عالمی حالات سے مقابلے کے لئے تیار کر سکتا ہے اور دنیا کو بہترین پیغام بھی دے سکتا ہے۔ پاکستان میں پچھلے دنوں او آئی سی کانفرنس منعقد کی گئی یہ کام پاکستان میں 40 برس بعد ہوا۔ اس کے لیے موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ خود پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ نفرتوں کو کم کرنے کے لیے پچھلے چند سال سے پیغام پروگرام پر عمل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں فرقہ واریت کی آگ بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہی وطن عزیز میں اقلیتوں کے احترام اور تقدس کے لئے بین المذاہب ہم آہنگی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لیے سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لئے کرتارپور میں شاندار کمپلیکس بنایا گیا۔ پچھلے سال کے آخری مہینے میں ہندو یاتریوں نے کٹاس راج کا رخ کیا۔ اس سال کے ابتدائی دن یعنی یکم جنوری کو بھی ہندو یاتریوں کا ایک وفد پاکستان آیا۔ اسی طرح بدھا مذہب کے پیروکار بھی پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ پاکستان نے تو اقلیتوں کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں، مگر ہمسایہ ملک بھارت میں ہندو اکثریت نے اقلیتوں کا جینا مشکل بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے علم میں ہے کہ ہندوستان میں عیسائیوں کے چرچ جلائے گئے۔ سکھوں کے گردواروں کی توہین کی گئی۔ مسلمانوں کی مساجد کو شہید کر دیا گیا۔ نفرت کی آگ عبادت گاہوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اس آگ کی لپیٹ میں انسان آچکے ہیں۔کشمیریوں پر ظلم کا بازار تو پہلے ہی سے گرم تھا۔ عیسائیوں اور سکھوں پر بھی زندگی تنگ تھی، اب بھارت کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ ہندو نچلی ذات کے شودروں کو بھی نہیں بخش رہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندوگردی نے وہاں کے پڑھے لکھے طبقہ کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں وہاں کے ریٹائرڈ فوجی افسروں اور سول بیورو کریٹس کے علاوہ وکلا نے مودی کو خطوط لکھے ہیں کہ بھارت کو بچایا جائے کیونکہ یہ آگ بھارت کو نگل جائے گی۔
اس وقت دنیا میں امن کی بہت ضرورت ہے اور امن اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر ملک میں اقلیتیں محفوظ ہوں۔۔

تبصرے بند ہیں.