کہیں معاملہ استغفار کا نہیں!

90

شکر تو نعمت کو بڑھا دیا کرتا ہے، شکر کرنے سے پہلے لمحہ بھر سوچ لینا چاہئے معاملہ استغفار کا تو نہیں۔ بہت سنا ہے ’’رب راضی تے سب راضی‘‘ اللہ کا راضی ہونا تو بڑے نصیب کی بات ہے۔ جو جہنم کی آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو گیا وہ کامیاب قرار پائے گا۔ اور اللہ جن پر راضی ہو میرے خیال سے جنت کا حصول ان کی نظر میں اللہ کی رضا سے پہلے مطمع نظر ہوتا ہے۔ یہ نفس مطمئنہ کے بغیر ممکن نہیں۔ آخرت کی باتیں جو قرآن عظیم میں آئیں جو سرکارؐ کی سنت اور زبان اقدس سے الفاظ کی صورت نکل کر فضاؤں کو معطر کر گئیں۔ میری اوقات نہیں کہ میں اس حلقہ میں کچھ لفظ لکھ سکوں، کوئی بات کر سکوں لیکن دنیا داری کے حوالے سے لوگ جو یہ محاورہ بولتے ہیں ’’رب راضی تے سب راضی‘‘ یہ میں نے بہت سنا ہے۔ مگر صد افسوس کہ دنیا کو ڈھونڈنے والے جو دربدر پھرتے ہیں وہ اللہ کی رضا کو مال و دولت، شہرت و اقتدار، لوگوں کے دلوں پر دھاک، چند گن میں دوچار ڈالے، پروٹوکول اور اگر میں اپنی معاشرت کے سیاق و سباق میں کہوں تو صاحب اقتدار، صاحب متاع سے قربت کو رب کا راضی ہونا سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی عروج کو نہیں تکبر کو زوال ہوتا ہے۔ حسن، طاقت اور اقتدار کا تکبر تو کسی وقت زوال کا منہ دیکھ ہی لیتا ہے لیکن علمیت کا تکبر تو تذلیل کی پاتالوں میں اتار دیا کرتا ہے۔ جس کا آج کل سامنا علمیت کا تین سال سے اظہار کرنے والے کر رہے ہیں۔ 
کیا بڑا اداکار، گلوکار، جانا جانے والا کالم نگار، اینکر، وزیر، مشیر، سرکاری آفیسر ہونا رب کے راضی ہونے کی دلیل ہے، ہرگز نہیں یہ جگ راضی ہے۔ رب کا راضی ہونا کچھ اور ہے۔ اللہ کی مخلوق جس پر جتنی راضی ہے دنیاداری کے اعتبار سے اللہ بھی اس پر اتنا ہی راضی ہو گا۔ تنوع، بناوٹ، شہرت یا مخلوق خدا کو راضی کرنا بشرطیکہ اس کا کاروبار بن جائے جس کے عوض پھر ایک مافیا بن جائے۔
گوجرانوالہ میں میرے محلہ دار بڑے بھائی پاء جی اعظم بٹ شہیدؒ کے دوست جناب محمد ایوب بسرا، سعید الرحمن بخاری، محمد سعید بھٹی صاحبان تھے۔ ہم ان کا اور یہ ہمارا خاندان ہی ہوتے تھے۔ محمد ایوب بسرا صاحب بائیں بازو کی سیاست کرتے تھے۔ میجر اسحاق، ڈاکٹر مبشر حسن جیسے دانشور ان سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ میں نے اپنے والدین، بھائیوں اور ان کے دوستوں سے بہت سیکھا۔ ایوب صاحب ویسے تو بسرا جٹ تھے اپنے آپ کو پنجاب کی سب سے کم تر ذات مصلی لکھتے تھے۔ ایک پنجابی ڈرامہ میں مصلی کا کردار انہیں بہت پسند تھا۔ بائیں بازو کے پنجابیوں نے ڈرامہ ’’مصلی‘‘ بنایا جس کے ایک مکالمہ سے آپ کو سمجھ آ جائے گی۔ ڈرامہ میں اشتراکی نظام کے تحت زمینی اصلاحات ہوتی ہیں کہ جو جس زمین پر کمیرہ یا پٹے دار ہے، وہی زمین کا مالک ہے۔ ’’جیہڑا وائے اوہی کھائے‘‘ والا معاملہ ہو گیا۔ جاگیردار یعنی چودھری اپنے کمیرے(کمی) مصلی کو کہتا ہے کہ زمینی اصلاحات ہو گئی ہیں تم تو میری زمین پر قابض نہیں ہوئے ناں؟ مصلی کہتا ہے ’’چودھری مصلی دی ڈانگ جدوں تیرے حکم تے چلدی سی تے سر توں پیراں تک پاڑ دیندی سی، اج تے مصلی نے اپنے حق واسطے ڈانگ چلانی اے توں آپ اندازا کر ایہہ کیہ ات چُکے گی‘‘۔ (چودھری جب مصلی کی ڈانگ تمہارے حکم پر چلتی تھی تو سر سے پاؤں تک پھاڑ دیتی تھی آج تو یہ مصلی نے اپنے حق کے لیے چلانی ہے خود اندازہ کر لو، کیا آخیر کرے گی)۔ جس وجہ سے انہوں نے اپنا تخلص بھی مصلی رکھ لیا۔ لیکن بائیں بازو کے علاوہ لوگ انہیں ایوب صاحب یا پھر ایوب تھانیدار ہی کہا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد صاحب تھانیدار تھے۔
ایوب صاحب سے میں نے بہت سیکھا۔ انہوں نے کتابوں کے نہیں برسوں کے حساب سے پڑھا، ہر مذہب ہر تہذیب سے واقف تھے۔ ہماری معاشرت میں حساس ہونا وہ سزا ہے جس کا کوئی تدارک نہیں، بے حسی نعمت ہے ورنہ حساس آدمی توسائیکیٹرسٹ کے پاس ضرور جائے گا۔
ایک دن دوپہر کے کھانے پہ جناب محمد سعید بھٹی، جناب سعید الرحمن بخاری اور ایوب صاحب آئے۔ رشید پردیسی، چودھری محمد سلیم المعروف گتہ فیکٹری والے، زاہد خان (ہیرو) پہلے سے موجود تھے۔ ایوب صاحب کو لاہور میں کسی سائیکیٹرسٹ سے انٹرویو کرانا تھا۔ ایوب صاحب نے کہا کہ آصف عنایت میرے ساتھ جائے گا تو میں جاؤں گا۔ ایوب صاحب مجھے کہنے لگے کہ آصف یہ سمجھتے ہیں میرا دماغی مسئلہ ہے حالانکہ یہ خود دماغی توازن درست نہیں رکھتے۔ میرے ابا جی جناب حاجی عنایت اللہ مجھے کہنے لگے کہ آصف پُتر تم ہی ساتھ جاؤ۔ معظم بھائی اور گلزار بھائی بھی موجود تھے۔ کھانا کھانے کے بعد شام کے انتظار میں سب قالین پر چادریں اور گدے بچھا کر لیٹ گئے۔ سعید الرحمن بخاری نے کہا ایوب صاحب فلاں بندے (جس کو ڈڈو کہتے تھے) پر اللہ کی بڑی رحمت ہے۔ ایوب صاحب نے کہا وہ کیسے؟ بخاری صاحب نے کہا اوپر نیچے دو ڈپٹی کمشنر، دو ایس ایس پی اس کے کلاس فیلوز گوجرانوالہ میں تعینات ہوئے ہیں اور وہ کونسلر بھی ہو گیا ہے۔ بنک گروی فیکٹری چھڑوانے کے بعد جائیداد بھی بنا لی ہے۔ ایوب صاحب کے دونوں ہاتھ سر کے نیچے اور تکیے کے اوپر تھے، اٹھ کر بیٹھے اور کہنے لگے اگر یہی اللہ کی رحمت ہے پھر ہمارے اسلاف پر تو نہیں تھی اور لیٹ گئے۔ گویا انہوں نے ارباب اختیار سے قربت کو رب کی رحمت، فیکٹری اور کونسلری کو رب کا راضی ہونا نہیں مانا۔ اسلاف میں جس ہستی کا انہوں نے نام لیا میں نہیں لکھ رہا۔ میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے کیا بات کی ہے۔ ایوب صاحب پیدل چلنے کے شوقین تھے۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن سے ماڈل ٹاؤن اور کئی بار باغبانپورہ ہم دونوں پیدل چلے جاتے۔ ایوب صاحب اپنے پسندیدہ مشروب جوس تھرماس میں ڈال کر پیتے جاتے اور تاریخ کے دریچے منکشف ہوتے چلے جاتے۔
باغبانپورہ سے گھنٹہ گھر چوک میں آتے راستے میں مجھے کہنے لگے آپ کو بھوک لگ گئی ہو گی کھانا کھاتے ہیں۔ میں نے پہلی بار غور کیا کہ گھنٹہ گھر کے اندر پکے پکائے کھانوں کا ہوٹل ہے۔ ہم نے کھانا کھایا۔ 30/35 سال پرانی بات ہو گی، ایوب صاحب نے 20 روپے دیئے اور ہوٹل والے سے کہا کہ وہ دو لوگ کھانا کھا رہے ہیں ان سے پیسے نہ لینا۔ وہ ایوب صاحب کے جاننے والے تھے۔ میں نے کہا بھائی جان ان کو بتا دیں کہ ہم نے آپ کا بل دے دیا ہے یہ نہ ہو کہ وہ ان سے بھی پیسے لے لے۔ ایوب صاحب کہنے لگے کہ اس سے بہتر ہے ہم ان کے پاس جا کر ان سے کہیں کہ ہمیں پیسے دے دو ہم نے آپ کا بل دے دیا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن میرے بیوی بچے بھی ساتھ ہوں دوست ہوں کوئی بھی ہو کھانے کا بل میں نے کبھی ان کے سامنے نہیں دیا ہمیشہ کاؤنٹر پہ چپکے سے جا کر بل دے آتا ہوں۔ اب اگلی بات جو اس تحریر میں آخری ہے کہ ایوب صاحب کے پاکستان کے اہم لوگوں سے تعلقات تھے۔ گوجرانوالہ ریلوے سٹیشن ٹی روم پر بیٹھا کرتے تھے یا پھر کراچی ملک قیوم کے اڈے پر وقت گزرا یا پھر باغبانپورہ میں ہمارا گھر بھی ان کا اپنا گھر تھا۔ ایک دن گوجرانوالہ بار میں بیٹھے ہوئے تھے تو میرے دوست ہمدم و دیرینہ چودھری احمد ندیم گورایہ کہنے لگے کہ پاء جی آپ کے اتنے تعلقات رہے ہیں آپ نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ایوب صاحب نے ندیم گورایہ کی طرف غور سے دیکھا اور کہنے لگے نہ مجھے کوئی الیکشن لڑنا ہے نہ میرا کسی عدالت میں مقدمہ ہے، نہ کوئی میرا پٹوار خانے کا مسئلہ ہے ، نہ میری کسی سے دشمنی ہے، رنگ باز بدمعاش ہوں نہ مفت بھر پہلوان، نہ کسی سیاستدان یا جغادری کے در پر پڑا ہوں اور نہ ہی میں کسی سے متاثر ہوں سوائے انسانیت میرا کوئی مسئلہ، کوئی جھگڑا نہیں نہ ہی کسی وزیر یا بیوروکریٹ کی چوکھٹ سے میرا لینا دینا ہے۔ بتاؤ ایسی کھٹی (فائدہ) اور کسی کی ہے، اس سے بڑھ کر کھٹی کیا ہوتی ہے؟ ندیم گورایہ خاموش! ایوب صاحب بائیں بازو کی سیاست کے اہم رکن ہونے کے باوجود اپنے سینے پر جیب کے برابر ایک ٹیگ جس پر Live like Ali, Die like Hussain لگائے بھی پائے جاتے۔
دراصل بہت سے معاملات ہوتے ہیں جو توبہ استغفار کے متقاضی ہوتے ہیں اور ہم اسے رب راضی تے سب راضی سے منسوب کرتے ہیں۔ اچھی جگہ تعیناتی ہو گئی، اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ہو گئے۔ لینڈ مافیا، اقتدار مافیا، میڈیا مافیا، مذہبی مافیا کی طرف سے پذیرائی ہو گئی اس کو رب راضی سے تعبیر کر لیا۔
بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے اقتدار اور شہرت یا کوئی عہدہ پانے سے پہلے انسان کی جتنی عزت ہوتی ہے وہ اس عہدے کی بدولت زمین بوس ہو جایا کرتی ہے۔ اپنے حکمران طبقوں سے ہی اندازہ لگا لیجئے جو جو جتنا جتنا منکشف ہوا ذلت کے گڑھوں میں اترتا دیکھا گیا۔ زندگی کی تمام جنگیں ہار کر بھی محض مال متاع، نام پروٹوکول اور اقتدار کے ایوانوں میں شنوائی کو رب راضی سمجھنے والے کبھی انجان بن کر اپنے بارے میں کسی کی رائے تو لیں، سب پتہ چل جائے گا۔ حکمران اور حکمران طبقے کونسی گالی اور بددعا ہے جو ان کے حصے میں نہیں آتی۔ یہ رب راضی کی بات نہیں یہ تو استغفار والا معاملہ ہے۔ دراصل یہ ہماری معاشرت کے مسئلے اور معاملے ہیں۔ مہذب ممالک جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے ایسی باتیں لکھنا اور کرنا ویسے ہی پاگل پن دکھائی دے۔ 2014 میں، میں سخت بیمار پڑ گیا، گھر میں آرام کرنا پڑا۔ رمضان المبارک تھا، تمام مکاتب فکر کے علما کو سنا، میں سوچتا کہ یار اگر ان کو امریکہ، یورپ، سیکنڈے نیوین ممالک میں لے جائیں یہ وہاں کیا کریں گے؟ وہاں نہ تو کوئی قبضہ گروپ ہے، نہ کوئی جھوٹ بولتا، کم تولتا، نہ کوئی عدالتی صادق اور امین اور نہ کوئی عوامی رائے میں نااہل ہے۔ نہ کوئی کسی کا مال کھاتا ہے، نہ ہمسائے کو تنگ کھاتا ہے۔ کسی بھی غلطی پر Sorry بولتے ہیں۔ گویا قانون نے ان کو انسانیت کی راہ دکھا دی۔ ایک امریکی صحافی سے میں نے کہا کہ آپ کا معاشرہ بہت مہذب ہے۔ وہ کہنے لگے، درندے ہیں جو قانون کی حکمرانی نے جکڑ رکھے ہیں، واقعی قانون کی حکمرانی نہ ہو تو وہ وحشی بننے میں دیر نہ لگائیں لیکن ہمارے ہاں مسالک، مساجد اور علما کا ایک سیلاب ہے پھر بھی سیالکوٹ اور موٹروے زیادتی جیسے، ساہیوال جیسے واقعات بلدیہ ٹاؤن کراچی اور کراچی بار میں وکلا کے جلائے جانے، پولیس کے اہلکار جتھوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعات عام ہیں۔ اگر کسی کو کوئی عہدہ ملے، کوئی موقع ملے تو سوچ لیں کہ معاملہ شکر کا ہے یا استغفار کا، اگر اللہ کی مخلوق راضی ہے تو رب راضی ہے ورنہ محض پروٹوکول رب کی رضا کا ثبوت نہیں۔ اللہ ہمیں مخلوق کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے کہ مخلوق کی خدمت میں ہی رب کی رضا ہے۔

تبصرے بند ہیں.