جماعت اور عوام

154

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ میں شہر کے مسائل کے حوالے سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ مال روڈ پر تھا، سچ تویہ ہے کہ جماعت اسلامی لاہور شہر کے مسائل کے حوالے سے جتنے احتجاجی مظاہرے کر چکی ہے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ میں ان کے ساتھ اس وقت بھی تھا جب وہ اک موریہ پل کی عدم تعمیر پر احتجاج کر رہے تھے اور اس وقت بھی جب وہ ملتان روڈ اور پھر گلشن راوی میں سراپا احتجاج تھے۔ جماعت نے ایک طویل عرصے سے جاگ میرے لاہور نام کی تحریک شروع کر رکھی ہے جس میں وہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں سڑکوں کی عدم تعمیر، ترقیاتی پراجیکٹس میں سست روی، سیوریج اور پینے کے پانی کے مسائل پر احتجاج کرتے ہیں، حکومت کی توجہ ان حقیقی مسائل کی طرف دلاتے ہیں جنہوں نے عام آدمی کا جینا اجیرن کیا ہوا ہے۔ اس اتوار کو مال روڈ پر مظاہرے کی قیادت خلیق بٹ کے ساتھ جبران بٹ کر رہے تھے جو حافظ سلمان بٹ جیسے جی دار اور ایماندارباپ کی ہو بہو تصویر ہیں۔ جماعت اسلامی کے بہت سارے رہنما جو بزرگ ہوچکے، اب اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اس نظریاتی تحریک کے حوالے کر رہے ہیں، جبران بٹ جب بھی بولتا ہے تو اپنے باپ کی طرح اکیلا ہزاروں کی بولتی بند کر دیتا ہے اور اسی طرح لیاقت بلوچ کے صاحبزادے احمد سلمان بلوچ، ان کے ساتھ بہت سارے ایسے جن کے نام لکھنے شروع کر دوں تو کالم کے لئے مختص جگہ ختم ہوجائے، یہ نسل درنسل نظرئیے کا سفر ہے اور مجھے یہ سفر مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی میں بھی نظر آتا ہے۔
ایک بات کی گواہی جماعت اسلامی کے بدترین مخالفین بھی دیں گے کہ اس پولیٹیکل پارٹی کے رہنما کرپٹ نہیں ہیں، ان کے پاس بڑے بڑے سرکاری عہدے بھی رہے مگر کبھی لوٹ مار کے مقدمات نہیں بنے جیسے سراج الحق جب خیبرپختونخوا کی حکومت میں وزیر خزانہ رہے تو عمران خان اپنے بندوں کے بجائے ان کی تعریفیں کرتے رہے۔ کراچی کے لوگ نعمت اللہ کی ضلعی نظامت کو اب تک یاد کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ محنتی بھی ہیں اور دیانتدار بھی ، یہ مڈل کلاس ہم میں سے بھی ہیں تو سوال ہے کہ عوام انہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے۔ مجھے اپنی صحافت کے ابتدائی دن یاد ہیں جب ضیا شاہد مرحوم جماعت اسلامی پاکستان کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کے انٹرویو کے لئے گئے۔ میں بطور رپورٹر ان کے ساتھ نوٹس لینے کے لئے گیا تھا۔ بہت سارے آن دی ریکارڈ سوال جواب ہوئے مگر پھر ہم دارلضیافۃ میں کھانے کی میز پر جا بیٹھے۔ ضیاء شاہد مرحوم کا یہی سوال تھا اور اس کا جواب قاضی حسین احمد کے پاس بھی نہیں تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ آج اس سوال کو عشرے گزرنے کے باوجود جواب ہنوز غیر موجود ہے۔
یہ بات نہیں کہ جماعت اسلامی نے اچھی سیاست کے ساتھ ساتھ روایتی سیاست کے طریقے استعمال نہیں کئے۔ یہ بات مجھے صدارتی ایوارڈ یافتہ صحافی نے بتائی کہ جما عت اسلامی نے بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف کا ساتھ دیا اور جب نواز شریف طاقتور وزیراعظم بن گئے تو جماعت نے حکومت چھوڑ دی۔ مجھے بتایا گیا کہ سید منور حسن مرحوم نے بزرگ صحافی سے ملاقات میں کہا کہ انہیں جن لوگوں نے نواز شریف کا ساتھ دینے کے لئے کہا تھا وہی انہیں ساتھ چھوڑنے کے لئے کہہ رہے ہیں اور اب وہ جماعت اسلامی کو موقع دیں گے۔ میں جناب قاضی حسین احمد کے ساتھ اس دھرنے میں بھی موجود تھا جو راولپنڈی میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے لئے دیا گیا تھا او روہاں اتنی آنسو گیس تھی کہ میں نے زندگی میں کبھی دوبارہ مری روڈ، پنڈی جیسی آنسو گیس کہیں نہیں دیکھی۔ ا س وقت بھی پیپلزپارٹی کی حکومت نے جی ٹی روڈ پر دیواریں کھڑی کر کے جماعت کے مارچ کا راستہ روکا تھا اور پھر اس وقت کے مقتدر حلقوں نے اس احتجاج کو بنیاد بنا کر فاروق لغاری کے ذریعے حکومت ختم کروا دی تھی۔
میرے پاس یادوں کے انبار ہیں، جب عتیق سٹیڈیم میں پاکستان اسلامک فرنٹ بن رہا تھا تو اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی اپنے خول میں بند رہتی ہے مگر اب وہ سوسائٹی کے اچھے لوگوں کو لے کر قوم کے سامنے انتخاب میں جائے گی تو کامیاب ہوگی مگر قوم ٹس سے مس نہ ہوئی۔ یہ بات نہیں کہ عمران خان یوتھ کو متحرک کرنے والے پہلے رہنما تھے، نہیں نہیں، وہ نہ نوجوانوں کی قیادت کا نعرہ لگانے والے پہلے رہنما تھے اور نہ ہی نواز شریف کے خلاف انتہا پر جانے والے۔ میں نے شباب ملی بھی بنتے ہوئے دیکھی اور ظالمو قاضی آ رہا ہے کے نعرے لگتے ہوئے بھی دیکھے۔ میں نے جاتی امرا کے باہرشریف فیملی کے مبینہ محلات کے خلاف اڈہ پلاٹ پر جلسے کی رپورٹنگ بھی کی ہے۔ یہ تینوں عوامل عمران خان نے استعمال کئے تو کامیاب ہو گئے مگر جماعت اسلامی نے استعمال کئے تو ناکام رہی، کیوں؟ جماعت اسلامی کو مشرف دور میں جو کامیابی ملی وہ شائدقاضی حسین احمد کی محنت سے زیادہ مولانا فضل الرحمان کے داؤ پیچ کی محتاج تھی۔
میں ڈرائنگ روم کا صحافی نہیں ہوں اور نہ ہی جعلی قسم کی دانشوری مجھے آتی ہے ورنہ میں جماعت کی ناکامی کے ہزار اسباب بیٹھے بیٹھے لکھوا دوں۔ اگرکوئی یہ کہتا ہے کہ قوم دیانتدار لیڈر چاہتی تھی اور اس لئے عمران خان کو چن لیا تومجھے کہنے دیجئے کہ قاضی حسین احمداورسراج الحق ان سے کہیں زیادہ باکردار اور ایماندار ہیں اور سید منور حسن کی خشیت الہٰی کی گواہی تو جماعت کا بدترین مخالف بھی دے گا۔ میں نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے اللہ کے خوف سے کانپتے ہوئے دیکھا ہے۔جما عت اسلامی کے دوست مجھے ایک سخت لفظ لکھنے پر معاف کریں، بہت سارے کہتے ہیں کہ جماعت اس لئے مقبول نہیں کہ یہ منافق ہیں، توبہ توبہ، وہ لیڈر جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگائے اور خود ہر مرتبہ اپنی آمریت قائم کرنے پر حکومت سے نکالا جائے، وہ بندہ جو مدینہ کی ریاست کانعرہ لگائے اور یوٹرن کو اپنی فخریہ پالیسی قرار دے وہ منافق نہیں مگر وہ لوگ جو نماز، روزے کے پابند ہیں، زکواۃ دینے میں سب سے آگے ہیں، وہ جن کی الخدمت، الغزالی اور نجانے کون کون سی عوامی خدمت کا ریکارڈ قائم کرنے والی تنظیمیں ہیں وہ منافق ہیں۔
میں آپ کو بتا رہا تھا کہ جماعت اسلامی نے لاہور کے مسائل کے حل کے لئے ریکارڈ مظاہرے کئے ہیں جبکہ اس شہر سے مقبولیت کا دعویٰ رکھنے والی نواز لیگ بھی مہنگائی کے خلاف جین مندر میں ایک ہی مظاہرہ کر کے تھک ہار کے بیٹھ گئی حالانکہ اس نے اس سے پہلے کنٹونمنٹ کے انتخابات میں کلین سویپ بھی کیا تھا اور اس کے بعد پرویز ملک مرحوم والی سیٹ بھی جیتی تھی۔ اب تیس دسمبر کو لاہوریوں کو درپیش ایشوز پر گجومتہ سے شاہدرہ تک روڈ مارچ بھی کیا جار ہاہے۔ جماعت اسلامی والے مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی ہیں، وہ نواز شریف کے مخالف بھی ہیں، وہ متحرک اور دیانتدار بھی ہیں، ان کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبا کی صورت میں نوجوانوں کی ملک گیر واحد نمائندہ تنظیم بھی ہے، وہ عوام کی خدمت کا وہ ریکارڈ بھی رکھتے ہیں جو کسی دوسری سیاسی جماعت کے پاس نہیں توپھر عوام ان کو ووٹ کیوں نہیں دیتے، یہ دس کروڑ روپے انعام کا حامل سوال ہے۔ میں نے جناب لیاقت بلوچ سے ایک قومی انتخاب میں دو، اڑھائی ہزار ووٹ لینے پر سوال کیا تھا کہ کلفٹن کالونی والے گھر سے مسلم ٹاؤن والے گھر تک کا آپ کا سیاسی سفراورمحنت میرے سامنے ہے، آپ کو تو اتنے ووٹ بھی نہیں ملے جتنے آپ نے چالیس، پچاس برس کی سیاست میں حلقے میں جنازے پڑھ ڈالے ہوں، آپ ان کے لواحقین کے ووٹ تک نہیں لے سکے، کیوں؟

تبصرے بند ہیں.