ایک سردار جی کی اپنی بیوی سے لڑائی ہوگئی، تو تو میں میں اتنی بڑھی کہ سردار جی نے ہاتھ جوڑ کر کہا،’’بس کر بس کر، اج توں توں میری ماں۔۔۔ !!‘‘ اب بیوی کو ماں کہہ دیا تو مذہبی معاملہ آگیا، دونوں اپنے گرو جی یعنی اپنے مذہبی پیشوا کے پاس گئے، تو گرو جی نے بڑی کتابیں نکال لیں۔ایک رکھ دوسری دیکھ۔دوسری رکھ تیسری دیکھ۔ڈھیر کتابیں دیکھ لیں پھر ایک کتاب کے ورق پھرول کے ان کو بتایا کہ اب تم دونوں کو چالیس دن تک چار سو لوگوں کو کھانا کھلانا پڑے گا پھر ہی تم دونوں کا میاں بیوی والا رشتہ بحال ہو سکتا ہے ورنہ تم کو علیحدگی کر نا ہو گی۔ بس جی ! پھر کیا ہوا؟سردار کو تو گھڑوں پانی پڑ گیا۔ برادری میں الگ سے بے عزتی کا خدشہ تھا۔۔۔ بہت خرچہ ہوا، اور سردار جی نے گھر کی ایک ایک چیز پیچ کر چالیس دن تک چارسو لوگوں کا کھانا پورا کیااکتالیسویں دن دونوں میاں بیوی خالی گھر میں اکلوتی چارپائی پر بیٹھے۔ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔سردار بہت افسردہ تھا۔گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ سردارنی بولی، ’’سردارا ! ، ایہہ سب کچھ تیری وجہ نال ہوئیا !‘‘ سردار جی نے غصے نال اپنی گھر والی کو دیکھا، اوربولے، ’’فیر چھیڑنی آ آپنے پیو نوں۔۔۔
تیسری دنیا یا تھرڈ ورلڈ کی اصطلاح سرد جنگ کے زمانے میں رائج ہوئی۔تیسری دنیا کا مطلب وہ ممالک ہیں۔جو نیٹو یعنی امریکی اتحادی ممالک اور سوشلسٹ یعنی روس اتحادی ممالک میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خود ان ممالک سے الگ تھلگ رکھا۔ پہلی دنیا کے ممالک میں ریاستہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا ، مغربی یورپ اور جنوبی کوریا وغیرہ شامل ہیں۔چین،سوویت یونین ،کیوبااور اس کے اتحادی ممالک دوسری دنیا کہلاتے ہیں۔عام طور پر’’تیسری دنیا‘‘ سے دنیا کے غریب ممالک مطلب لیا جاتا ہے جو درست نہیں۔ اس وقت تیسری دنیا(یعنی تھڑڈ ورلڈ) کے 170 کے لگ بھگ ترقی پذیر ،پسماندہ اور غریب ممالک امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجتماعی شکنجے کے مقابلے میں اس قدر کمزور اور بے دست و پا ہو چکے ہیں کہ یہ ممالک اکیلے اور تن تنہا امریکہ،مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے استعماری غلبے اور شکنجے سے قطعاً آزادی اور نجات حاصل نہیں کر سکتے۔
ان گارڈ فادروں نے ترقی پذیر ممالک کو بڑی ہوشیاری اور عیاری و مکاری سے دبوچ رکھا ہے۔ جتنی دیر دنیا کے یہ 170 کے لگ بھگ ترقی پذیر،پسماندہ اور غریب ممالک آزادی پسند حکمرانوں،آزادی پسند سیاستدانوں اور آزادی پسند پارٹیوں اور تحریکیں اکٹھی ہو کر اپنی ہم مزاج اجتماعی ریاستی بلاکوں اور ریاستی اتحادوں کو امریکہ،مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی معاشی،اقتصادی، مالی اور مالیاتی غلامی سے نجات اور آزادی دلوانے کی کوشش کریں۔
یاد رہے کہ ایک سو سال پہلے اِسی قسم کا مشورہ 1921ء میں مہاتما گاندھی نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے زیر غلام علاقوں کے آزادی پسندوں کو دیا تھا۔گاندھی جی کا یہی مشورہ آگے چل کر غیر وابستہ ممالک کی تنظیمیعنی (Group of seventy seven countries ) کے قیام کی بنیاد بنا تھا اور بہت سے ممالک ان کے چنگل سے آزاد ہو گئے تھے۔اگر ہمارے سیاسی عزائم سیاسی پراپیگنڈے اور مفاد پرستی اسی طرح کی رہی تو ہم ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کی صفِ اول کا حصہ رہیں گے۔اگر ہمارے منتخب کردہ نمائندے ،ہمارے لیڈر،ہمارے وزراء اسی ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے تو یقینا ہم ترقی سے کوسوں دور جا گریں گے۔اگر ہم انہی چہروں کو بار بار آزماتے رہیں گے تو سردار کی طرح گھر ہر چیز بیچ کر ہاتھوں پر ہاتھ دھر بیٹھ جائیں گے اور جو ہمیں درست مشورے دینے آئے گا تو اسے ہم صرف یہی کہیں گے کہ ’’فیر چھیڑ دے او پیو نوں‘‘۔
بدلتی حکومتوں،سیاسی اجارہ داریوں،مس فٹ حکمرانوں،اقربا پرور لوگوں،بیوروکریٹوں،عسکری شہزادوں نے تو اس قوم کی حالت رانا غلام محی الدین کے ان اشعار جیسی کر دی ہے:
اک پیاس اور سامنے خیمے تھے آگ تھی
پانی ملا تو آگ بجھانے میں لگ گیا
پھر یوں ہوا کہ تم بھی زمانے کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ دل بھی زمانے میں لگ گیا
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.