بینائی کے بین

30

احمد حماد نے جس تیزی سے ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنائی ہے‘یہ اللہ کی عطا ہے۔شاعری ہو یا میڈیائی دنیا‘دونوں شعبوں میں اپنے کامیابیوں کی ایک طویل فہرست اپنے نام کی‘ایک زمانہ احمد حماد کے علم و فن کا معترف ہے لہٰذا گزشتہ روز پی ٹی وی میں مشاعرے کی ریکارڈنگ کے بعد جب مجھے احمد حماد نے اپنی کتاب’’بینائی کے بین‘‘ سے نوازا‘تو انتہائی خوشی ہوئی۔ایسے لوگوں کا میں ہمیشہ مداح رہا ہوں جنھوں نے سیلف میڈ زندگی گزاری‘جنھوں نے محنت اور جہدِ مسلسل کے بل بوتے پر اپنی کامیابی کو اپنا مقدر بنایا‘بلاشبہ احمد حماد کا شمار بھی ایسے قلم کاروں میں ہوتا ہے جن کی کامیابی کے پیچھے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کی ایک طویل داستان ہے۔ایسے تخلیق کاروں کے مداحین اور حاسدیں کی تعداد ساتھ ساتھ چلتی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں کسی کے شانوں پر بیٹھ کر سفر کرنے والوں کی تعداد جینوئن لکھنے والے سے کہیں زیادہ ہے‘ایسے ماحول میں اگر کوئی پر نکالنا شروع کر دے تو اپنے ہی دوست اس کے پر کاٹنے اور اس کی پرواز روکنے کا فریضہ سر انجام دینے لگتے ہیں۔شعری دنیا انتہائی خوفناک لوگوں سے بھری ہے‘آپ کے لیے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ کون آپ سے سچی محبت و عقیدت رکھتا ہے اور کون’’ میٹھی چھری ‘‘کا کردار ادا کر رہاہے۔احمد حماد خوش قسمت آدمی ہے کہ اسے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد میسر آئی ہے اور حاسدین کی بھی ایک قلیل تعداد اس کے ساتھ ساتھ سفر میں ہے۔ہمارے اس پیارے دوست نے نفرت کرنے والوں کے لیے بھی محبت کی نظمیں کہیں‘گالی دینے والوں کو بھی رومانوی شعر سنائے‘یہ ایک مثبت آدمی کی نشانی ہوتی ہے۔احمد حماد کے شاگردوں‘مداحوں‘دوستوں اور پیاروں نے ان کو ہمیشہ بے تحاشا محبت سے نوازا اور یقین کریں اس محبت میں اتنی طاقت تھی کہ احمد حماد کے پر کاٹنے کی تدبیر کرنے والے مشورے کرتے رہ گئے اور احمد حماد بہت آگے نکل گئے۔
میں گزشتہ دو گھنٹوں سے ان کا شعری مجموعہ’’بینائی کے بین‘‘پڑھنے میں مصروف ہوں‘میں قرأت کے دوران خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوں کہ اس کتاب میں موضوعات کا ایک جہان آباد ہے ‘لفظوں کی تصویر کاری اور موضوعات کا چنائو اس عمدگی سے کیا گیا ہے کہ جیسے شاعر پر نظمیں اورمضامین ایک ساتھ الہام ہوتے رہے۔ایسی شاعری جو عصر ِ رواںکا نوحہ بھی ہے اور ماضی کی داستان ِالم ناک بھی‘تاریخ کا پرتو بھی ہے اور تہذیبی و ثقافتی رویوں کی بازگشت بھی‘استعمار کے خلاف جہاد بھی ہے اور سامراجی نظام کے منہ پر طمانچہ بھی۔احمد حماد نے جیسے اپنی غزلوں میں معاشرتی پیچیدگیوں‘نئی اور پرانی تہذیب کے تصادم‘بنتی مٹتی اقدار و روایات‘سیاسی و سماجی مسائل سمیت معاملاتِ حسن و عشق کے تقاضوں اور اس کی نئی حسیت کا اظہار و بیان انتہائی سلیقے اور ہنرمندی سے کیا ہے‘اس کی درجنوں مثالیں ان کی نظموں میں بھی موجود ہیں۔میری بات کی تصدیق ان کی نظمیں’آئین ِ نو‘،’لیڈی میکبتھ‘،’وہ حرفِ راز جو سکھلا گیا‘،’سفر گزیدہ‘،’روحِ جناح کے حضور‘ کر رہی ہیں۔نظموں کے ساتھ غزلوں کے درجنوں شعر بھی میری اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ احمد حماد کی شعری کائنات ‘ہماری زمینی کائنات اور حقائق سے جڑی ہوئی ہے۔’’بینائی کے بین‘‘کی شاعری ہمارے ہاں ٹنوں کے حساب سے چھپنے والے شعری مجموعوں سے بہت مختلف ہے۔آج کا نوجوان قلم کار معاملاتِ حسن و عشق سے توبھرا پڑا ہے مگر صدحیف کہ انتہائی تیزی سے تنزلی کی جانب بڑھنے والے اس معاشرے سے لا تعلق ہے‘اسے اس چیز کی توفکر لاحق ہے کہ مشاعروں کی دوڑ میں کیسے شامل ہونا ہے مگر وہ اس چیز سے لا علم ہے کہ ایک تخلیق کار کو اپنی اقدار و روایات کا پاس کیسے رکھنا چاہیے۔دوستو!احمد حماد اس ہجوم سے بالکل مختلف ہے‘وہ بالکل الگ تھلگ بیٹھا اپنی ریاضت میں مصروف ہے‘یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اردو میں ایک نئی اور انفرادی آواز کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کے وجدان کی اور جمالیاتی شعور کی ایک خاص شخصیت ہے جو نہایت دل کش خد و خال سے مزین ہے۔ان کے سوچنے کا اندازاپنے دور کے سیکڑوں شاعروں سے مختلف اور نمایاں ہے‘یہی ان پر خدا تعالیٰ کی عنایت ہے۔
آپ نے اگر احمد حماد کی شاعری میں اپنے عہد کا نوحہ پڑھنا ہو تو ان کی نظم’’آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے‘‘کا مطالعہ کریں یا پھر مشعال خان قتل پر لکھی جانے والی نظموں کو لازمی دیکھیں۔آپ ان نظموں کے مطالعے کے دوران اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ احمد حماد کہیں بھی اپنے معاشرے اور سماج سے لا تعلق نظر نہیں آتا۔سیاسی جنگ وجدل ہو یا سانحات کا انبار‘احمد حماد ہر دکھ پر نوحہ لکھتا ہے‘کئی نظموں میں معاشرتی حادثات کو اس عمدگی اور تلخی سے بیان کیا گیا ہے کہ ان نظموں کو شہرِ آشوب کہا جا سکتا ہے۔کہیں کہیں یوں بھی لگتا ہے کہ احمد حماد نے یہ شعر اور نظمیں روشنائی سے نہیں اپنے خون سے لکھی ہیں ‘بارہا ایسا ہوا کہ ان اداس نظمیں پڑھتے ہوئے میری آنکھیں نم ناک ہو گئیں ‘میں خود کو ان نظموں کے سامنے بے بس محسوس کرنے لگا۔احمد حماد کی شاعری اور اس میں رچے دکھ‘حقیقت میںاس معاشرے کے وہ خدوخال ہیں جنھیں آج کا قلم کار بھول گیا‘افسوس تو اس بات کا ہے کہ مادی ترقی کی دوڑ میں شامل کئی اچھے ادیب بھی اپنا مقصد کھو بیٹھے۔جامعات کی طالبات کو متاثر کرنے والے دانشوروں نے شعر و آگہی کے معانی و مفاہیم ہی بدل کر رکھ دیے۔شعر اس لیے پڑھے اور سنے جاتے تھے کہ ان میں موجود داستانِ الم ناک ہمیں ماضی و حال اور مستقبل کا شعور دیتے تھے مگر حیف اب معاملہ مختلف ہو گیا۔احمد حماد کے شعروں اور نظموں نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ آج بھی ایسے لکھنے والے موجود ہیں جن کا مسئلہ شعر رہا ہے‘جن کا مسئلہ سماجیات رہا ہے‘جن کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے مداحین زیادہ ہو رہے ہیں یا نہیں بلکہ انھیں اس بات سے غرض ہے کہ ان کا شعری جہان ‘دنیاوی جہان سے کتنا جڑا ہوا ہے۔میں کالم میں احمد حماد کے اشعار بھی نقل کرتا مگر کالم کی طوالت کا خدشہ پیش نظر ہے‘اس لیے شاعری کا معاملہ میں آپ سب دوستوں پہ چھوڑتا ہوں‘آپ احمد حماد کی شاعری ضرور پڑھیں اور اس نوجوان کے مستقبل کے لیے دعا کریں کیوں کہ ایسے قلم کار ہی معاشرے کے خدوخال بنانے اور سنوارنے کا کام کرتے ہیں۔بقول احمد حمادؔ:
کبھی کبھی میں بہت کھلکھلا کے ہنستا ہوں
کبھی کبھی میر ی وحشت ٹھکانے لگتی ہے
جو قہقہے نہ لگائوں تو میرے سینے میں
کسی کے رونے کی آواز آنے لگتی ہے

تبصرے بند ہیں.