سیاست کے نئے رخ اور پی ٹی آئی

37

صوبہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے بعد سیاست میں ہلچل ہے،ایک طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، دراصل یہ تمام تر باتیں اس لیے ہو رہی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کو اس صوبے میں خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی بڑے شہروں کی مئیر شپ ہار گئی مگر یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف نے پورے صوبے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں آج بھی سب سے زیادہ ووٹ بینک رکھنے والی جماعت ہے۔یہ بات اپنی جگہ کہ زیادہ تحصیل چیئرمین جے یو آئی ف کے بنے مگر یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف کے تحصیل چیئرمین جے یو آئی ف کے بعد سب سے زیادہ ہیں اس میں کوئی زیادہ فرق بھی نہیں ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو پارٹیاں اس وقت زیادہ اچھل کود کر رہی ہیں یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی، ان دونوں جماعتوں کی کیا صورت حال رہی تو اس سلسلے میں یہ عرض کرتی چلوں کہ خود کو بڑی سیاسی جماعتیں سمجھتے والی یہ دونوں پارٹیاں پورے صوبے میں
پٹ گئی ہیں خیر سے ایک جماعت نے تحصیل چیئرمین کی دو تین سیٹیں حاصل کیں تو دوسری جماعت کو تو صرف ایک تحصیل چیئرمین مل سکا، کیا یہ صورت حال ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت پر سوالیہ نشان نہیں؟ کیا ان نتائج سے صاف پتہ نہیں چل رہا کہ ان دونوں جماعتوں کو لوگوں نے بُری طرح مسترد کر دیا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب تحریک انصاف نے سب سے زیادہ ووٹ لیا تو وہ جیتی کیوں نہیں اور اس کے تحصیل چیئرمین زیادہ کیوں نہیں بنے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ ایک دوسرے کی مخالفت کرتے رہے، ایک ایک حلقے میں تحریک انصاف کے کئی کئی امیدوار کھڑے ہوگئے پھر آپس کے اختلافات بھی ہار کا بڑا سبب بنے، ٹکٹوں کی تقسیم نے بھی تحریک انصاف کی شکست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ میں تو اب بھی یہی سمجھتی ہوں کہ اگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ الیکشن لڑا جاتا تو تحریک انصاف جیت جاتی۔
بلدیاتی الیکشن میں انتہائی بری کارکردگی دکھانے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے سوائے بیان بازی کے اور تو کچھ کیا نہیں جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف وجوہات تلاش کیں بلکہ اپنی پارٹی کی تمام تنظیمیں توڑ دیں اور پھر اس کے بعد اپنے پرانے قابل اعتماد افراد پر مشتمل عہدیداروں کی نئی ٹیم سیاسی میدان میں اتاری ہے لیکن اس دوران ان جماعتوں نے کچھ نہیں کیا۔ جنہیں عوام نے مسترد کردیا ہے اور اس کے باوجود ان کے دعوے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی ادارے، جمہوریت کے بنیادی ادارے ہیں، پاکستان میں کبھی انہیں پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔اکثر جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے گریز ہی کرتی رہیں۔ اس سلسلے میں عمران خان داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا کر دیا۔ اس سلسلے میں ایک اور بات عرض کرتی چلوں کہ تحریک انصاف نے بغیر شور شرابہ کے اپنی ہار کو تسلیم کیا دھاندلی کا شور نہیں کیا جبکہ اپوزیشن کا تو یہ وتیرہ ہے ہار جاؤ تو دھاندلی جیت جاؤ تو بہت اچھا۔

تبصرے بند ہیں.