پروفیسرمحمدحیات کاسفر حیات

99

ٍٍ پیر 27دسمبر 2004کی بات ہے۔ جاڑا جوبن پر تھا سرد یخ بستہ ہوائیں پوری طرح رواں تھیں۔نیا سال 4روز بعد آنے کیلئے پر تول چکا تھا۔دسمبر کی سوگواری ، اداسی اور دل گرفتگی سے معمور فضا میں دنیائے طب کے درخشندہ ستارے پروفیسر ڈاکٹر محمد حیات ظفر نے اس دار فانی سے رخت سفر باندھا اور سوئے ارم روانہ ہوئے۔ پروفیسر محمدحیات ظفر ایک عہد، ایک تحریک اور ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے گریجویٹ پروفیسر حیات ظفر زمانہ طالب علمی میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی یوتھ سیکورٹی میں اہم ذمہ دار اور عہدیدار تھے۔ زمیندار خاندان سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر حیات ظفر متوسط اور غریب طبقے سے دوستی رکھنے میںفخر محسوس کرتے تھے۔نظم و ضبط میں ڈھلے ہوئے پروفیسرڈاکٹر حیات ظفر کے ہندو اور انگریز دوست ان کی تعلیم و تربیت اور ڈسپلن مزاجی کے باعث ان سے رشک کرتے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے میٹرک کے امتحان میں ٹاپ کر کے محمد حیات ظفر نے اپنے ہندو ، سکھ اور انگریز طلباء ساتھیوں کو حیران کر دیا۔ ہمہ صفت ، ہمہ جہد اور ہمہ پہلو پروفیسر حیات ظفر جنوبی ایشیاکے پہلے ڈاکٹر تھے جو اپنے شعبے کے تمام عہدوں پر فائز رہے۔ وہ نشتر میڈیکل کالج و ہسپتال کے پرنسپل و میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر ، کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان کے صدر ، نشتر کالج بورڈ آف گورنر ز کے چیئرمین ، انٹرنیشنل میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی کے رکن اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے پہلے وائس چانسلر تھے۔ اس کے علاوہ حکومت نے انہیں چیئرمین خدمت کمیٹی ملتان مقرر کیا۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ علاوازیں پروفیسرڈاکٹر حیات ظفر مختلف طبی تنظیموں اور اداروں کے ممبر بھی رہے، مختلف ممالک کے طبی اداروں کی اعزازی رکنیت بھی انہیں حاصل رہی، وہ خود فرماتے تھے میں نے تمام عہدے انجوائے کر لئے ہیں اب مجھے کسی عہدے کے ضرورت نہیں ، اب تو میں نہایت سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے مالک حقیقی کے پاس جانا چاہتا ہوں۔
پروفیسر حیات ظفر عالمی شہرت یافتہ فزیشن اور بہترین استاد ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجہ کے منتظم، معاملہ فہم ، دور اندیش ، عزم و ہمت کے پیکر، ذہانت و فطانت میں اتارْو ، وضع دار ، ملن سار ، مثالی کاشتکار اور مشفق و مہربان، دست قدرت کا شاہکار تھے۔ پروفیسر حیات ظفر معاشرے کے تمام طبقات میں یکساں محترم، ملک بھر کی تمام طبی ،سماجی اور معاشرتی تنظیموں میں مقبول اور ذاتی زندگی میں صاحب بصیرت اور زیرک انسان تھے۔ ان کی معاشرتی قدر و منزلت کا یہ عالم ہے ، ملتان اور کبیر والا کی سڑکیں ان کے نام سے منسوب ہیں۔ پی ایم ڈی سی اور ملتان کالج ایڈیٹوریم بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔ فاطمہ جناح کالج میڈیکل کالج یونیورسٹی میں گائنی اور میڈیسن کے پوزیشن ہولڈرز کو پروفیسر حیات ظفر گولڈ میڈل عطا کیا جاتا ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال کے بانی ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ کے بعد اس ادارے کی تعمیر و ترقی کا تمام کریڈٹ پروفیسر حیات ظفر کو دیا جاتا ہے۔ انہوں نے نشتر کالج میں 6 مختلف مضامین میں ڈپلومہ کورسز کا اجراء کیا ، جس سے عالمی سطح پر پوسٹ گریجویشن کیلئے نشتر میڈیکل کالج کو تسلیم کیا گیا۔ امراض قلب کا شعبہ ، فیملی وارڈز ،آئی سی یو ، کالج ایڈیٹوریم ،لیکچر تھیٹر۔ جدید لیبارٹریز ، گرلز ہاسٹل، گیسٹ روم کی تعمیر مختلف شعبوں کی اپ گریڈیشن سمیت کئی ترقیاتی منصوبے مرحوم کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کی سند امتیاز ہیں۔ پروفیسر حیات ظفر نے نشتر میڈیکل میڈیکل کالج کے علاوہ بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی کی تعمیر وترقی اور میعاری تعلیم کی بہتری کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔ موصوف نے عالمی سطح پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یو نیسیف سمیت مختلف اداروں ، میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں ہونے والی کانفرنسز اور سیمینارز میں مندوب کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی۔
پروفیسر حیات ظفر ورلڈ کلاس ٹیچر کی حیثیت سے بیرون ملک لیکچر دیتے رہے۔ بے شمار قومی اور بین الاقوامی اجتماعات میں تحقیقی مقالہ جات پڑھے۔ غیر ملکی طبی جرائد میں موصوف کے ریسرچ پیپرز کو انتہائی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا طرز تدریس نہات موثر اور جاذبانہ تھا اور ان کے اثر انگیز لیکچرز طلبا کے قلب وذہن میں اتر جاتے تھے۔ وہ 1975سے 1989تک نشتر میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے۔ اتنے طویل عرصے کی پرنسپل شپ کا اعزاز اس سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے شاگردوں کی اکثریت کو بھی مختلف میڈیکل کالجز کی پرنسپل شپ کا اعزاز حاصل رہا۔ واضح رہے اچھے والدین کی اچھی اولاد، نعمت خداوندی ہے۔ پروفیسر حیات ظفر کے فرزند ارجمند پی جی ایم آئی ، امیر الدین میڈیکل کالج اور لاہور جنرل ہسپتال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سردار الفرید ظفر نے اپنے عظیم والد کی یاد میں نور حیات ظفر فاو ¿نڈیشن قائم کر کے مرحوم کے خواب کو شرمندہ ¾ تعبیر کیا ہے اور متوسط طبقے کے بچوں کی تعلیم و کفالت کے پروگرامز کا اجراء، خواتین کیلئے تربیتی مراکز کا قیام، جہاں کام سیکھ کر خواتین با عزت روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔ میڈیکل کیمپ لگا کر اپنے والد کے خدمات کو بڑھاوا دیا ہے۔قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے چک سلطان محمود ، تحصیل کبیروالا ضلع خانیوال میں قیام کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر حیات ظفر کے شاگرد دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر انجم حبیب وہرہ ، پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ، پروفیسر ڈاکٹر راشد لطیف، پروفیسر ڈاکٹر طارق صلاح الدین ، پروفیسر ڈاکٹر افتخار راجہ، پروفیسرڈاکٹر محمود چوہدری ، پروفیسر ڈاکٹر شمیم احمد خان، پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود، پروفیسر ڈاکٹر فخر زمان، پروفیسر ڈاکٹر محمد طیب ، پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمن ، پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد اور دیگر شامل ہیں۔
چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز ،پروفیسر ڈاکٹر انجم حبیب وہرہ کے مطابق پروفیسر حیات ظفر مردم شناس ، کوالٹی آف لیڈر شپ کا پرتو اور مریضوں کیلئے امرت دھارا تھے۔ اگر کسی سرکاری تقریب کے باعث وہ دن میں اپنے مریضوں کے پاس نہ جا پاتے تو رات کے وقت ایک ایک مریض کے بستر پر جا کر ان کا معائنہ کرتے تھے۔ شفاء اگرچہ من جانب اللہ ہے لیکن پروفیسر حیات ظفر بہترین طبیب اوروید کی چلتی پھرتی مثال تھے۔
مرحوم کی دیگر خوبیوں میں قابل ذکر وصف یہ بھی ہے وہ ائیر کنڈیشن میں بیٹھتے نہ بڑی گاڑی استعمال کرتے تھے۔ اکانومی کلاس میں سفر کرنا انہیں پسند تھا۔ اپنے شاگردوں کو ہمیشہ تلقین کرتے تھے کہ صحت اور تعلیم کو کاروبار مت سمجھو، پاکستان کی مٹی بڑی ذرخیز ہے اس میں اپنی محنت کی تخم ریزی کریں تاکہ بہترین فصل اْگے اور اس سے اعلیٰ درجے کی پیداوار ہو۔ بیرون ملک ملازمت کرنا کوئی اعزاز کی بات نہیں ، مزا تو یہ ہے کہ اپنے ملک میں رہ کر دکھی انسانیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے۔ بیرون ملک کے بجائے اپنے ملک میںخدمت کرنا زیادہ افضل ہے۔پروفیسر حیات ظفر ایماندار ، شریف النفس ، خوش اخلاق ، صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے احساس سے معمور تھے۔ ایک نرس انور سلطانہ کا مرحوم پروفیسر کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ 1984میں نشتر ہسپتال سے نرسنگ کورس کر کے فارغ التحصیل ہوئی۔ اس وقت پروفیسر ظفر حیات کی وارڈ میں ڈیوٹی کرنا نرسز فخر سمجھتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب مریضوں کے علاج اور لواحقین کی کونسلنگ کا حق کما حقہ ادا کرتے تھے۔ یاد رہے پروفیسر ڈاکٹر حیات ظفر کونہ صرف ریڈیالوجی پر عبور حاصل تھا بلکہ انفیکشن کے امراض کے سدباب اور شعبہ میڈیسن کے بھی ماہر تھے۔ مریض کو دیکھ کر ہی اس کی مرض کا پتہ چلا لیا کرتے تھے۔ادویہ کے انتخاب اور نسخہ کی تیاری میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ ہر ایک کا فون خود سنتے تھے۔کسی کی فون کال کو نظر انداز نہیں کرتے تھے۔غریب پروری اور فرض شناسی کا یہ عالم تھا کہ وفات سے آدھا گھنٹہ پہلے بھی ایک مریض کو چیک کر کے حق مسیحائی ادا کیا۔پروفیسر ڈاکٹر حیات ظفر کے اخلاص ، اخلاق اور اوصاف کا احاطہ ایک مضمون میں کرنا ممکن نہیں۔ ان کی برسی پر اس تحریر میں خدا سے دعا ہے اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔

تبصرے بند ہیں.